لاہور(نمائندہ خصوصی):وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف کی حکومت عالمی مالیاتی فنڈ سے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری کو بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے تاہم اس پروگرام کے لیے حکومت کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ زراعت سے متعلق بھی اقدامات کرنا ہوں گے جسے ماہرین ایک بڑا چینلج قرار دیتے ہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ یعنی ایم آئی ایف نے پاکستان کو یہ قرض سخت شرائط کے بعد دیا ہے جس کا اعتراف وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے بھی کیا ہے۔ اِن شرائط میں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شعبے زراعت سے متعلق اہم اقدامات بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی سروے 2023 کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 22 فی صد ہے جبکہ یہ شعبہ 37 فی صد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
اب تک غیرسرکاری طور پر سامنے آنے والی شرائط کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ وہ مالی نظم و ضبط کو مزید سخت کرنے کے لیے اناج کی امدادی قیمتوں متعین کرنے سے گریز کرے اور ان کی فروخت کھلی مارکیٹ میں یقینی بنائی جائے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے پاکستان کو زرعی شعبے پر بھی ٹیکس عائد کرنا ہوں گے۔
ساتھ ہی آئی ایم ایف نے خبرادار کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئی ایم ایف پروگرام کے دوران پاکستان اضافی گرانٹس کو روک دے گا۔
آئی ایم ایف کی فصلوں کی امدادی قیمت اور زرعی شعبے کے لیے دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی شرائط سے پاکستان کے زرعی شعبے پر کیا اثر پڑے گا؟ اس پر ماہرین مختلف رائے رکھتے ہیں۔