رواں سال چھ پاکستانی صحافیوں اور ایک یوٹیوبر کی ٹارگٹ کلنگ: رپورٹ
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2024 میں صحافت سے وابستہ افراد کے خلاف 57 ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں دھمکیاں، حملے اور قانونی ہراسانی شامل ہے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2024 پاکستان میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک سالوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے، جس میں چھ پیشہ ور صحافیوں کے علاوہ ایک یوٹیوبر ہدف بنا کر قتل کیے گئے ہیں۔پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ 2024 کے مطابق صحافت سے وابستہ افراد کے خلاف 57 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں جبکہ صوبوں نے میڈیا اور اس کے پیشہ ور افراد کے خلاف جرائم کی روک تھام اور انہیں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے خاص اقدامات نہیں کیے۔رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ وفاقی اور سندھ صوبائی قوانین جو میڈیا کے پیشہ ور افراد کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں، ان جرائم کی روک تھام کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔سالانہ رپورٹ میں تشویشناک اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں – نومبر 2023 سے اگست 2024 کے درمیان 11 قتل کی کوششیں ریکارڈ ہوئیں، جن میں پانچ صحافیوں اور ایک ڈیجیٹل میڈیا کے پیشہ ور کا قتل شامل ہے۔رپورٹنگ کے عرصے کے دوران کم از کم 57 خلاف ورزیاں، جن میں دھمکیاں، حملے، اور قانونی ہراسانی شامل ہیں، بھی ریکارڈ کی گئیں۔
صحافیوں کے خلاف جرائم پر سزا سے استثنی کے لیے دو نومبر کو دنیا بھر میں، بشمول پاکستان منائے جانے والے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی رپورٹ کی رونمائی کرتے ہوئے فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ ’سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پروفیشنلز بل 2021 اور فیڈرل پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021 کے نفاذ کے باوجود، وفاقی اور سندھ حکومتیں ان قوانین کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کی وجہ سے صحافیوں کو قانونی تحفظ کے بغیر خطرے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔‘انہوں نے ایک پریس ریلیز میں بدھ کو کہا کہ ’صحافیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی قوانین کے نفاذ میں سیاسی ارادے اور وسائل کی کمی پاکستان میں صحافیوں کے لیے صورت حال کو خطرناک بنا رہی ہے۔’مضبوط اور فعال حفاظتی میکانزم کے بغیر، یہ قوانین غیر مؤثر رہیں گے، اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کی زندگیوں کو مزید خطرات کا سامنا رہے گا۔‘رپورٹ کے مطابق جائزہ لینے والے سال میں سندھ وہ صوبہ تھا جہاں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں، جو کہ 37 فیصد یا 21 میں سے 57 کیسز (جن میں تین قتل بھی شامل) ہیں۔
اس کے بعد پنجاب کا دوسرا نمبر ہے جہاں 23 فیصد خلاف ورزیاں (13 واقعات) ریکارڈ کیے گئے۔اسلام آباد اس سال صحافت کے لیے تیسرا سب سے خطرناک علاقہ رہا جہاں 21 فیصد خلاف ورزیاں (12 کیسز) پیش آئیں۔ خیبر پختونخوا چوتھے نمبر پر رہا جہاں 12 فیصد (سات واقعات جن میں دو قبائلی صحافیوں کے قتل شامل ہیں) خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں، جبکہ بلوچستان میں 3.5 فیصد خلاف ورزیاں (دو واقعات) ریکارڈ کیے گئے۔ٹی وی کے صحافیوں کو ان واقعات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا – کل 30 واقعات جو کہ 53 فیصد بنتے ہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کے واقعات 35 فیصد رہے۔ ڈیجیٹل صحافیوں کو 10 فیصد اور ریڈیو صحافیوں کو 2 فیصد مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ان صحافیوں میں جنہوں نے ان دھمکیوں کا سامنا کیا، نو فیصد خواتین صحافی بھی شامل تھیں۔ رپورٹ میں ان دھمکی دینے والوں کی شناخت بھی کی گئی ہے جو ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ ان میں حکومتی ادارے (47 فیصد)، سیاسی جماعتیں (12 فیصد) اور مختلف شناخت شدہ عناصر (16 فیصد) شامل ہیں۔ نامعلوم عناصر کی تعداد 25 فیصد رہی۔
رپورٹ میں پاکستان کا پہلا ’میڈیا امپیونٹی انڈیکس‘ بھی متعارف کرایا گیا ہے، جو وفاقی اور صوبائی سطح پر امپیونٹی کے خلاف اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لیتا ہے۔پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’یہ انڈیکس مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے، جیسے کہ پالیسی کے اقدامات، قانونی کارروائیاں اور صحافیوں کے لیے حفاظتی میکانزم کا قیام۔
اگرچہ وفاقی اور سندھ حکومتوں نے صحافیوں کے لیے حفاظتی قوانین پاس کرنے میں اہم پیش رفت کی ہے، لیکن ایک اہم کمی یہ ہے کہ یہ قوانین مؤثر حفاظتی کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ان قوانین کے نفاذ کے لیے ضروری ہیں۔‘انڈیکس میں سندھ حکومت دس میں سے نو پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ وفاقی حکومت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے صحافیوں کے تحفظ اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان بنیادی مشاورت سے متعلق قوانین کا مسودہ تیار کرنے میں صرف دو پوائنٹس حاصل کیے ہیں۔پنجاب نے صرف ایک پوائنٹ حاصل کیا ہے جو صوبوں میں سب سے کم درجہ بندی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے استثنیٰ سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔ہر ماہ میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف اوسطا چھ خلاف ورزیوں کی اطلاع دی جاتی ہے، لہذا ریاست، میڈیا اور سول سوسائٹی کے درمیان مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قانون کے مطابق صحافیوں کے لیے سیفٹی کمیشن کے قیام میں تاخیر اس کے ابتدائی وعدوں کے بالکل برعکس ہے جبکہ سندھ کا کمیشن برائے صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود غیر فعال ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران ایسے کئی واقعات پیش آئے جب ضلعی عدالتوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں نے مختلف جرائم میں ملوث صحافیوں کو بچانے کے لیے آواز اٹھائی، جن میں اکثر ریاستی عناصر شامل تھے۔