عوام عمل چاہتے ہیں بیانات نہیں !……ناصف اعوان
وجودہ نظام جس میں پولیس ”ہتھ چُھٹ“ ہو چکی ہے قانون کو جب چاہے نظر انداز کر دیتی ہے ہر نوع کے مافیاز اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے آگے عوام بے بس ہیں کو تبدیل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں
اس وقت برسر اقتدار سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی قیادت پر بیانات کے تیر چلانے میں مصروف ہیں ان کا خیال ہے کہ اس طرح پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے اپنا رخ موڑ لیں گے ۔ان کا ایسا سوچنا محض خوش فہمی ہے ۔عوام ان کے بیانات سی نہیں عملی اقدامات سے ہی اس سے رخ موڑ سکتے ہیں لہذا انہیں اپنی تمام تر توانائیاں ان کی فلاح وبہبود پر صرف کرنی چاہیں مگر وہ ابھی موجودہ نظام جس میں پولیس ”ہتھ چُھٹ“ ہو چکی ہے قانون کو جب چاہے نظر انداز کر دیتی ہے ہر نوع کے مافیاز اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے آگے عوام بے بس ہیں کو تبدیل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں ؟
یہ حقیقت ہے کہ ملکی خزانہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ عام آدمی کو سہولتیں دے سکے اس کے لئے انقلابی سوچ کو بروئے کار لانا ہوگا اس فرسودہ نظام کی موجودگی میں لوگوں کے مسائل پر قابو پانا ممکن ہی نہیں مگر حکمران سیاسی جماعتیں اس نظام کو بدلنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ یہ ارب کھرب پتی ہیں ان کی زندگیاں پُرتعیش بسر ہو رہی ہیں۔ ان کی بڑی بڑی جائیدادیں بیرونی ممالک میں ہیں ان کی نسلیں کسی قسم کی فکر کے بغیر وہاں قیام پزیر ہیں وہ برسوں تک بھوک ننگ کو محسوس نہیں کر سکیں گی۔ ان سیاسی جماعتوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ جائیدادیں دولت کے ڈھیر کہاں سے آئے؟ یہ سارا پیسا عوام کا نہیں تھا کیا ؟ جسے وہ بڑی ”احتیاط “ سے اپنی تجوریوں میں لے گئیں ۔ نتیجتاً معاشی مسائل سے لے کر سماجی تک میں ہولناک اضافہ ہوا مگر حکمران جماعتوں کے بہی خواہ و خیر خواہ بعض دانشور اور صحافی حضرات اپنی گفتگوؤں اور تحریروں سے عمران احمد خان نیازی کو رگڑا دیتے چلے جا رہے ہیں ان کی شدید خواہش ہے کہ سیاسی منظر نامہ حکومت کے حق میں ہو جائے ان کے ذہن میں اب بھی یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ لوگ بیوقوف ہیں بھولے ہیں اور سادہ ہیں لہذا وہ جو کہیں گے اسے من و عن مان لیں گے ؟
ہمیں افسوس ہوتا ہے اور حیرت بھی کہ وہ اب بھی بیس تیس برس پہلے والی سیاست کے حامی ہیں اور عوام کو بے خبر سمجھ رہے ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ اب تک بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے تبدیل ہو رہا ہے ۔ ویسے یہ نہ بھی کہا جائے‘ لوگوں کو اپنے سیاست دانوں کو آزماتے ہوئے ستتر برس پیت گئے ہیں ان کی کہہ مُکرنیاں وچالاکیاں سب ان کے سامنے ہیں یعنی وہ ان کے مستقبل کو روشن کرنے کا وعدہ تو کرتے رہے مگر اسے پورا نہیں کر سکے ۔پھر انہیں کبھی بھی شریک سفر نہیں کیا ایوانوں میں وہی لوگ پہنچے جو مال دار تھے بڑے ناموں والے تھے وہ کروڑوں انتخابات پر لٹاتے رہے اور اقتدار میں آکر اپنا ” نقصان“ پورا کرتے رہے ان ہی لوگوں نے ملک میں نظام مساوات کو نہیں آنے دیا سرمایہ داری اور جاگیرداری کے گٹھ جوڑ سے حکمرانی کرتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج میری دھرتی قرضوں کے خوفناک ترین جال میں جکڑی جا چکی ہے ۔ شیر خوار تک مقروض مگر ہمارے مسائل حل کرنے والے دماغ پُر سکون ہیں اور پیسے کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں مگر غریب کے گھر میں غربت کا بھیانک رقص جاری رہتا ہے۔ وہ بیمار پڑ جائیں تو دوائیں ان سے نہ خریدی جاسکیں اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی کہ وہ اس کے حصول سے محروم رہیں اور ہمارے یہ مہربان انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہر وہ وعدہ کرتے ہیں جس سے عام آدمی کا ہر دکھ دور ہوتا ہو اور اقتدار سے پہلے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ آ بھی ان ہی کے لئے رہے ہیں ۔ مگر یہ کھلا دھوکا ہوتا ہے ۔اقتدار میں آنے کے بعد سو طرح کی کہانیاں سنانے لگتے ہیں ۔
در اصل یہ آتے ہی ذاتی اغراض کے لئے ہیں اور پھر اپنا وقت پورا ہونے پر ملک سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ دیکھ لیجئیے یہاں کوئی ٹکتا ہی نہیں گوروں کے دیس کی جانب پرواز کر جاتا ہے کیونکہ وہاں اسے اور سکون ملتا ہے اور وہ چین کی بانسری بجاتا ہے مگر یہاں لوگ رُل رہے ہوتے ہیں ان کی کوئی ریاستی ادارہ دل جوئی نہیں کرتا بلکہ الٹا اسے اور رلاتا ہے ۔یہ سلسلہ جاری و ساری ہے مگر پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ مخلوق خدا سر اٹھا رہی ہے اور اس نظام کہنہ کو ترک کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور بلا خوف کر رہی ہے اس پر اہل اختیار کان دھرنے کے بجائے انہیں اسی نظام کے تحت جینے کی ترغیب و تحریک دے رہے ہیں مگر تیر کمان سے نکل چکا ہے صبر ختم اور آرزوؤں کے چراغ روشن ہونا شروع ہو گئے ہیں جن کی لو کم کرنے کے لئے اہل ثروت پورا زور لگا رہے ہیں ۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اکیسویں صدی کے تقاضے اور ہیں جن سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جاسکتی ستتر برس تک تو وہ امیدوں اور دلاسوں پر زندہ رہے ہیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ انہیں کچھ سمجھا ہی نہیں جا رہا کوئی اہمیت ہی نہیں دی جا رہی وہ بھوکوں مریں ساری پریشانیاں ان کے لئے ساری تکلیفیں وہ اٹھائیں یعنی ”دُکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں“ تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ ارباب اختیار کی لچھے دار تقریروں وعدوں اور دعووں پر یقین نہیں کریں گے لہذا اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے جیون میں رنگ بھرا جائے ۔اس پر مگر وہ انہیں ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں وہ اپنے حقوق کی بات کریں تو کہا جاتا ہے خاموش رہو جبکہ ملک کا آئین انہیں بنیادی حقوق دیتا ہے مگر آج تک انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ بس رُکتی چلتی سانسوں تک محدود رکھا گیا ہے ۔اب جب لوگوں کی غالب اکثریت عمران احمد خان نیازی کے گرد جمع ہو رہی ہے تو یہ منظر ”سٹیٹس کو“ کے حامیوں کو گوارا نہیں وہ انہیں اپنے مخصوص حصار میں رکھنے پر بضد ہیں جبکہ عوام اس نظام کو جس نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کیا تسلیم نہیں کر رہے وہ اسے بدل دینا چاہ رہے ہیں اگرچہ فی الحال ان کی جدو جہد کسی بڑی تبدیلی کی شکل میں سامنے نہیں آسکی مگر ان میں غم و غصہ موجود ہے اور دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ غصہ جب بڑھتا ہے تو وہ ایک طوفان یا انقلاب میں بدل جاتا ہے جس کو روکنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ ہاں اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے عوام سے محبت‘ جس کی عملی صورت آسانیاں اور سہولتیں ہوتی ہیں انصاف کی فراہمی ہوتی ہے لہذا حکومت اپنی توجہ خان کے بجائے عوام کی خیر خواہی و بھلائی پر مرکوز کرے پھر اسے واقعتاً سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا صاف دکھائی دے گا !