حلب، حماہ اور حمص کے بعد مسلح دھڑوں کا ہدف دمشق ہے: ایردوآن
ایردوآن نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ٹیلیفون پر رابطے میں کہا کہ شامی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے کی خاطر جلد از جلد اپنے عوام سے معاملہ کرے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ شام میں مسلح گروپوں کی پیش قدمی "مشکلات کے بغیر” جاری رہے گی۔ یہ بات ترکیہ کی وزارت خارجہ نے آج جمعے کے روز ایک بیان میں بتائی۔
ایردوآن کا کہنا ہے کہ "ادلب، حماہ اور حمص۔۔۔ یقینا ہدف دمشق ہے۔۔۔ اپوزیشن کی پیش قدمی جاری ہے۔۔۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ پیش قدمی مشکلات کے بغیر جاری رہے گی”۔
ایردوآن کے مطابق جب انھوں نے شامی صدر بشار الاسد کو ملاقات کی دعوت دی تو ان کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا۔ البتہ شامی صدر نے کسی بھی ملاقات سے پہلے ملک کے شمال میں ترکیہ کی فوج کے زیر کنٹرول اراضی سے انخلا کی ضمانت کا مطالبہ کر دیا۔
اس سے قبل ترکیہ کے ایوان صدارت نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ ایردوآن نے شام میں حالات پر سکون بنانے کے لیے ایک نئے مرحلے پر بات چیت کی۔ اسی طرح ترک صدر نے اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد پر زور دیا کہ وہ شام کی صورت حال کے لیے جلد کوئی "سیاسی حل” تلاش کریں۔
ایردوآن نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ٹیلیفون پر رابطے میں کہا کہ شامی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے کی خاطر جلد از جلد اپنے عوام سے معاملہ کرے۔
واضح رہے کہ شام میں مسلح گروپوں نے جمعرات کے روز ملک کے چوتھے بڑے شہر حماہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ پیش رفت حلب اور ادلب کے شہروں پر قبضے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔
تحریر الشام تنظیم اور ترکی کے حمایت یافتہ دیگر اتحادی گروپوں نے تقریبا ایک ہفتہ قبل ملک کے شمال مغرب میں واقع ادلب سے اپنے حملے کا آغاز کیا تھا۔
شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ المرصد کے مطابق لڑائی میں اب تک 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مسلح گروپوں کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ شامی فوج کے 65 سے زیادہ فوجی اور افسران مارے گئے ہیں۔