
جاوید اختر اے ایف پی کے ساتھ
بنگلہ دیشی فوڈ ڈیلیوری رائیڈر شبیر الرحمٰن عالم نے بخارسٹ میں رات کے وقت سائیکل پر کھانا پہنچانا بند کر دیا ہے، جب سے ایک شخص نے ان کے ایک ہم وطن کو سڑک پر مارا اور چیخ کر کہا، ”اپنے ملک واپس جاؤ!‘‘ اور ’’تم ایک حملہ آور ہو !‘‘
29 سالہ عالم نے اے ایف پی کو بتایا، ”میں خوفزدہ ہوں۔‘‘انہوں نے کہا کہ اگست میں پیش آنے والا یہ واقعہ اُس کے لیے حیران کن تھا۔
عالم نے، جو رومانیہ کے جھنڈے والی کالی ٹوپی پہنے ہوئے تھا، کہا، ”مجھے لگتا ہے لوگ بہت غصے میں آ گئے ہیں۔‘‘
یہ حملہ اُس وقت ہوا جب دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے یو آر کے ایک رہنما، جو تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، نے فیس بک پر عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر رومانوی ڈرائیوروں سے ڈیلیوری لینے سے انکار کریں۔
متعدد یورپی ممالک میں تارکینِ وطن کے خلاف حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو براعظم بھر میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ ساتھ بڑھا ہے۔
رومانیہ میں تشویش بڑھ رہی ہے، کیونکہ یہ ملک مینوفیکچرنگ، تعمیرات، تجارت اور مہمان نوازی کے شعبوں میں یورپی یونین سے باہر کے کارکنوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ ڈیلیوری رائیڈرز نے تو اپنے کھانے کے تھیلوں پر "میں رومانوی ہوں” تک لکھنا شروع کر دیا ہے۔
صدر نکوسور دان نے اگست کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیزی سے ابھرنے والا ایک نسلی تشدد کا عمل‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ”الفاظ کے حقیقی اور بعض اوقات افسوسناک نتائج ہوتے ہیں۔‘‘

جھوٹے دعوے
حالیہ برسوں میں رومانیہ میں یورپی یونین سے باہر کے کارکنوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جو 2024 کے آخر تک 1,40,000 تک پہنچ گئی۔ ان میں زیادہ تر نیپال، سری لنکا، ترکی اور بھارت سے ہیں۔
یورپی روزگار خدمات (ای ای ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق، جیسے جیسے رومانوی شہری یورپی یونین کے اس غریب رکن ملک کو چھوڑ کر بیرونِ ملک کام کے لیے جا رہے ہیں، مشرقی یورپ کا یہ ملک 27 رکنی یورپی بلاک میں افرادی قوت کی سب سے زیادہ کمی والا ملک بنتا جا رہا ہے۔
لیبر فورس درآمد کرنے والے آجرین کی فیڈریشن کے صدر رومولس بادیہ نے کہا کہ غیر ملکی ورکرز پر حملے اب تک انفرادی نوعیت کے ہیں، تاہم اُنہیں امید ہے کہ یہ صورتحال ”ایک رجحان‘‘ میں نہیں بدلے گی۔
بادیہ نے مزید کہا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر غیر ملکی مزدوروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ محسوس کیا ہے، جن میں یہ جھوٹا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ”یہ لوگ ہماری نوکریاں چھیننے آ رہے ہیں۔‘‘
گہری تقسیم والے معاشرے میں، دائیں بازو کے ایک امیدوار نے گزشتہ سال صدارتی انتخابات میں غیر معمولی شہرت حاصل کی تھی، تاہم بعد میں وہ انتخابات منسوخ کر دیے گئے۔
نکوسور دان نے مئی میں دوبارہ ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن مخالفِ تارکین وطن جماعتیں پارلیمان کی ایک تہائی نشستوں پر غیر معمولی طور پر قابض ہیں۔
اے یو آر کے سربراہ جارج سیمیون نے گزشتہ ہفتے فیس بک پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ بخارسٹ کی ایک عمارت میں غیر ملکی تارکین وطن کو رومانوی شہریوں سے بہتر رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم عمارت کے مالک نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تزئین شدہ عمارت تمام مزدوروں کے لیے ہے۔
یورپی کونسل کے انسدادِ امتیاز ادارے، یعنی یورپی کمیشن اگینسٹ ریسزم اینڈ انٹالیرنس نے گزشتہ ماہ رومانیہ پر اپنی رپورٹ میں کہا، ”تشویش کی بات یہ ہے کہ میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ان نفرت انگیز سیاسی بیانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
اے ایف پی کی اس استفسار پر کہ آیا حالیہ مہینوں میں غیر ملکی ورکرز سے متعلق حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، قومی پولیس نے جواب دیا کہ اُن کے پاس ”اس شکل میں اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جیسا کہ آپ نے درخواست کی ہے۔‘‘

تشویش ناک صورت حال
متعدد ورکرز نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ آئی ٹی ورکر روبن جیاتھس ، جو پچھلے 15 سال سے رومانیہ میں مقیم ہیں، نے کہا کہ زیادہ تر رومانوی شہری اب بھی خوش اخلاق ہیں، لیکن انہیں فکر ہے کہ آن لائن نفرت انگیز رویہ ”تیزی سے بڑھ رہا ہے‘‘۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ”میں نے پہلے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘
اکتوبر میں بخارسٹ کے مرکزی علاقے میں ایک پوسٹر چسپاں کیا گیا جس میں نائجیریا کے ایک شخص کی تصویر تھی، جسے ریپ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اور شہریوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ”اپنے شہر کا دفاع کریں‘‘۔ پولیس نے بعد میں وہ پوسٹر ہٹا دیے، اور کسی نے ان کے لگانے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
نومبر کے آغاز میں، بخارسٹ کے قریب ایک قصبے میں سری لنکن ڈیلیوری رائیڈر پر ٹریفک جھگڑے کے بعد ایک شخص نے موبائل چارجنگ کیبل سے حملہ کیا، گالیاں دیں اور اس پر تھوکا۔ متاثرہ شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی، لیکن بعد میں وہ واپس لے لی۔
جب یہ واقعہ عوامی ہوا تو ایک مزدور یونین نے اعلان کیا کہ وہ ایسے تمام کارکنوں کو مفت قانونی مدد اور ہراسانی یا بدسلوکی کے کیسز میں تعاون فراہم کرے گی۔
یونین نے کہا، ”بدقسمتی سے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اور ایسے بار بار کے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔‘‘



