کالمزحیدر جاوید سید

سفرِحیات کے چھیاسٹھ برس ، قلم مزدوری، دوست اور کتابیں …..حیدر جاوید سید

سفر حیات کے 66 برس مکمل ہونے پر 67ویں برس کا پہلا دن جنم شہر میں بیتانے کی خواہش تھی۔ سرد موسم، بیماری اور روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی قلم مزدوری نے یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی

میری دلی خواہش یہ تھی کہ اس بار 25 دسمبر کی طلوع ہوتی صبح اپنے جنم شہر ملتان میں دیکھوں اور آنکھیں ٹھنڈی کروں۔ پھر اپنی (امڑی سینڑ) والدہ حضور اور والد بزرگوار کی تربتوں پر حاضری دوں۔ لاٹھی ٹیک کر چلنے کی اذیت برداشت کرتے ہوئے چوک حسین آگاہی کے راستے سے چوک بازار میں داخل ہوکر قدم قدم چلتے ہوئے پہلا پڑائو مسجد ولی محمد کی سیڑھیوں پر کروں۔ سستالینے کے بعد صرافہ بازار میں حضرت سیدی موسیٰ پاکؒ کے حضور حاضری دوں۔
پاک گیٹ پہنچ کر دال مونگ، سلونی پوڑی اور حلوے سے ناشتہ کروں ۔ چوک سے چند سو گز پر میری چھوٹی بہن کا گھر کے چائے وہاں چائے نوش کروں اس طرح بھانجیوں کی زیارت بھی کرلوں گا۔ اگلا پڑائو آبائی گھر (محلہ اسحق پورہ) کی اس گلی میں واقع اپنی بڑی بہن کے گھر ڈالوں اسی گلی میں کبھی قدیم طرز کی چھوٹی اینٹوں کا ایک نیم پختہ مکان ہوا کرتا تھا۔
یہ مکان تب صبح و سے شام تک روشن رہتا تھا کیونکہ امڑی سینڑ سیدہ عاشو بی بی وعظ والیؒ ان دنوں حیات تھیں۔ امڑی کے گھر کا دروازہ نماز فجر کے وقت کھل جاتا تھا اور رات گئے بندھ ہوتا۔ صبح دم کے ساتھ ان کی عقیدت مند خواتن کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
اس گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوتے تو سامنے چھ دروازوں والا دالان نما بڑا کمرہ تھا۔ اس کمرے کے اندر ایک اور سٹور نما کمرہ بھی تھا۔ اس میں ایک طرف جست کی پیٹیوں اور ٹرنکوں میں امڑی اور بہن بھائیوں کی چیزیں محفوظ تھیں دوسری جانب امڑی کا پلنگ بچھا ہوتا تھا۔ ٹرنکوں اور پیٹیوں کے آگے بھی ایک چارپائی بچھی رہتی تھی۔ امی حضور اس پلنگ پر کبھی کبھار ہی آرام کرتی تھیں دن بھر وہ دالان نما کمرے کے پہلے دروازے کے ساتھ بچھے تخت پوش پر بیٹھی رہتیں۔ ان کے اردگرد ان خواتین کا جمگھٹا رہتا جو اپنی بی بی سے ملنے آتی تھیں۔
یہ تخت پوش صرف اس وقت امی حضور کے مسکراتے روشن چہرے سے خالی رہتا تھا جب وہ وعظ کے لئے کہیں تشریف لے جاتیں۔
ہمارے بچپن میں گھر کا صحن کچا تھا تب ہم اس گھر میں میاں اقبال حسین کے خاندان کے کرایہ دار تھے۔ بہت بعد میں یہ گھر امی حضور نے خرید لیا پھر صحن پختہ ہوگیا اسی صحن کے ایک کونے میں باورچی خانہ تھا اس میں ایک طرف سال بھر کے لئے خریدی ہوئی گندم کی بوریاں رکھی رہتیں۔ دوسری طرف چولہا تھا۔ سوئی گیس آنے سے قبل جب چولہے میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں تب چولہا صحن میں تھا پھر اس کی جگہ مٹی کے تیل کے چولہے نے لے لی۔
آگے چب کر سوئی گیس آگئی۔ باورچی خانے میں ابتداً امی حضور اپنی آل اولاد کی شکم سیری کا اہتمام کرتی تھیں پھران کی جگہ ہماری بڑی بہن نے لے لی اور امی حضور کی آخری سانس تک انہوں نے ماں کے گھر کی گھرداری سنبھالنے رکھی اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں نبھاتیں۔
ہماری والدہ صاحبہ کو ملتانی خواتین بی بی جی کہتی تھیں۔ کبھی نام لیتیں تو سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کہہ کر مخاطب کرتیں اور تعارف کرواتیں۔ میں جن سموں میں یہ سطور لکھ رہا ہوں سفر حیات کے 66 برس پورے کرکے 67ویں برس میں قدم رنجہ فرماچکا ہوں۔ زندگی یہی ہے جو گزار آیا ہوں۔
پچھلے چند برسوں سے علیل ہوں۔ دل کی بیماری تو سال 2006ء سے ہے تین برس قبل گھٹنوں کی تکلیف شروع ہوگئی تب سے لاٹھی کے سہارے چلتا ہوں۔ اس علالت کے باعث خود کو گھر تک محدود کرلیا ہے۔اب معمول یہ ہے کہ صبح ساڑھے آٹھ نو بجے اپنی لائبریری میں آن بیٹھتا ہوں۔ دوپہر میں کچھ دیر آرام اور پھر لائبریری۔ لکھنے پڑھنے کے علاوہ آجکل سوشل میڈیا پر ’’جہاد‘‘ یہیں بیٹھ کر ہوتا ہے ۔
سفر حیات کے 66 برس مکمل ہونے پر 67ویں برس کا پہلا دن جنم شہر میں بیتانے کی خواہش تھی۔ سرد موسم، بیماری اور روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی قلم مزدوری نے یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی۔
صبح دم میں نے اپنے موبائل میں محفوظ تربت مادر گرامی اور آبائی گھر والی گلی کی تصاویر کی زیارت پر اکتفا کیا۔ تربت مادر گرامی کی تصویر دیکھتے ہوئے آنکھیں بھیگ گئیں۔ وجہ آج کے دن خواہش کے باوجود ان کی تربت پر حاضری نہ دے سکنا تھی۔ سوشل میڈیا پر برادر عزیز شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی، محمد عامر حسینی ، رانا شرافت علی ناصر اور چند دوسرے دوستوں نے مبارکباد اور دعائوں کے ساتھ توصیفی سطور بھی رقم کیں۔ ان پیغامات اور توصیفی سطور پر دوست احباب کا شکر گزار اور ان کے لئے دعاگو ہوں۔
صبح دم میری صاحبزادی سیدہ فاطمہ حیدر کا ہوسٹن امریکہ سے فون آیا باپ بیٹی نے جی بھر کے باتیں کیں۔
سجنوں ، پیاریو ، مترو ، بیلیو ، سنگتیو ! سفر حیات کے 66 برس پورے ہوئے 67ویں برس کا پہلا دن ہے۔ ساڑھے 6 دہائیوں سے ایک برس اوپر کے سفر کا حساب سارا ازبر ہے۔ ملتان کے ایک دین دار خاندان کا وہ لڑکا جو نماز نہ پڑھنے پر ہونے والے تشدد سے باغی ہوکر 9 برس کی عمر میں گھر سے بھاگ کر کراچی چلا گیا تھا اب چھیاسٹھ برس کا لاٹھی ٹیک کر چلتا آدمی ہوگیا۔ چھیاسٹھ برسوں کے اس سفر حیات میں میں نے قلم مزدوری 9 ویں جماعت میں اس وقت شروع کی تھی جب روزنامہ ’’اعلان‘‘ کراچی میں استاد مکرم جناب فضل ادیب کی نگرانی میں بچوں کا صفحہ بناتا تھا۔ تب دوپہر کو شائع ہونے والے اخبارات میں صفحہ 3 چار حصوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ بچوں، خواتین، طلبا و طالبات اور محنت کشوں اور چوتھائی حصہ سپورٹس اور شوبز کے لئے مختص ہوتا تھا۔
یہ چاروں کوارٹر پیج ایک دن پیشگی تیار ہوتے تھے چھٹی کرنا ہوتی تو اپنے حصے کے ایک سے زائد صفحے تیار کرنا پڑتے تھے۔ اس قلم مزدوری سے قبل میں نے سکول جانے کے ساتھ دوپہر سے شام تک خوانچہ بھی لگایا میری آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ نے میرے لئے خصوصی خوانچہ تیار کیا تھا۔
حکم یہ تھا کہ جونہی مغرب کی اذان ہو تو گھر واپس آجائوں۔ چوتھی سے چھٹی جماعت تک میں نے خوانچہ لگایا گلی گلی گھوم کر خوانچے پر رکھی اشیاء فروخت کرتا تھا۔ چھٹی جماعت پاس کی تو خوانچہ لگانا بند کرادیا گیا پھر میں نے اپنی آپا اماںؒ کی لائبریری میں بیٹھنا شروع کردیا۔
ہماری عمر کے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ان برسوں میں تقریباً ہر محلے یا دوسرے محلے میں لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں کتابیں رسالے اور ڈائجسٹ کرایہ پر ملا کرتے تھے۔ مطالعے کا شوق آپا اماںؒ نے ڈالا۔ کبھی کسی کتاب سے چند صفحات پڑھ کر سناتیں کبھی چند صفحات پڑھنے کو کہتیں۔ چھٹی جماعت میں بچوں کے لئے پہلی کہانی لکھی تھی جو روزناہ اعلان کراچی میں شائع ہوئی اور ا نعام بھی ملا۔ فقیر راحموں قلمی نام تھا اب تک موجودو سلامت ہے۔
جماعت نہم کے دوران روزنامہ ’’اعلان‘‘ کراچی میں بچوں کا صفحہ بنانے کی ملازمت مل گئی۔ یہ ملازمت خالصتاً ہمارے ہم جماعت جاوید حمید کی بدولت ملی جو اخبار کے مالک اور چیف ایڈیٹر حمید اختر صاحب کے صاحبزادے تھے۔ آج حساب کریں تو قلم مزدوری کرتے ہوئے نصف صدی سے چند برس اوپر ہوگئے ہیں۔ اس قلم مزدوری کے دوران لگ بھگ 5 برس جیل بھی کاٹی۔ کراچی کا کورنگی کریک کیمپ ، لاہور کا شاہی قلعہ ملتان کا تھانہ سی آئی اے سٹاف اور سکھر میں آئی ایس آئی کے تفتیشی مرکز کو بھگتا ، سکھر ملتان اور بہاولبور کےعلاوہ کیمپ جیل لاہور میں زیرسماعت مقدمات کے حوالاتی اور جنرل ضیاء الحق دور کی خصوصی فوجی عدالت کے سزایافتہ قیدی کے طور پر قیام کرنے کی سعادت ملی۔
قلم مزدوری کے پہلے دن کی طرح آج بھی قلم مزدوری ہی اوڑھنا بچھونا ہے یہی ذریعہ روزگار ہے۔ ہفت روزہ ’’جدوجہد‘‘ کراچی، ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور، ہفت روزہ ’’کہکشاں‘‘ لاہور اور ماہانہ ’’زنجیر‘‘ لاہور میں بطور ایڈیٹر فرائض ادا کئے۔ روزنامہ ’’اعلان‘‘ کراچی، روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں بھی قلم مزدوری کی۔ کچھ عرصہ روزنامہ ’’اعلان‘‘ ملتان میں رپورٹر کے طور پر کام کیا۔ روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں کالم نویسی کے علاوہ سیاسی ایڈیشن کے لئے بھی کام کیا۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور میں سب ایڈیٹر کے منصب سے ایڈیٹوریل ایڈیٹر تک کے فرائض منصبی ادا کئے۔
اداریہ نویسی میں جناب سید عالی رضویؒ استاد مکرم ہیں۔ سیاسی انٹرویوز کے حوالے سے استاد مکرم اکرم شیخؒ نے رہنمائی کی۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ پشاور، روزنامہ ’’میدان‘‘ پشاور اور روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور میں سینئر ادارتی منصبوں پر برسوں فرائض ادا کئے اپنے جنم شہر ملتان میں روزنامہ ’’جنوبی پنجاب‘‘ کا ایڈیٹر رہا۔ بعدازاں 2011ء سے 2018ء کے درمیان روزنامہ ’’خبریں‘‘ ملتان کے لئے مشرق پشاور کی انتظامیہ کی اجازت سے کالم لکھتا رہا اپنے وسیب سے زندہ تعارف کا ذریعہ برادرِ عزیز امتیاز احمد گھمن اور خبریں ملتان ہی ہوئے ۔
2015ء سے 2020ء تک روزنامہ ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ لاہور کے ایڈیٹر کے طور پر فرائض ادا کئے۔ قلم مزدوری جاری ہے اداریہ نویسی کرتے 41 برس ہوگئے۔ آج کل روزنامہ ’’بدلتا زمانہ‘‘ ملتان کے لئے اداریہ اور کالم لکھتا ہوں اور مشرق پشاور کے لئے کالم۔ مجھے دوست اور کتابیں پسند بلکہ مرغوب ہیں۔
دوست اچھے اور محبت کرنے والے ملے میرے دوست نہ ہوتے تو شاید میں اتنی ثاقب قدمی کے ساتھ اپنی فکر پر قائم نہ رہ پاتا۔ بیٹی امریکہ کی ہوسٹن یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔
ہم دو بوڑھے (میں اور اہلیہ) ان سموں میں نوک جھونک سے وقت بیتاتے ہیں جب میں لائبریری میں نہیں بیٹھتا ورنہ میری لائبریری ہی میرے لئے عظیم الشان پناہ گاہ ہے۔ کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی باقی باتیں پھر کبھی سہی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button