
(سید عاطف ندیم-پاکستان): بلوچستان کے ضلع خضدار میں اسکول بس پر ہونے والے ہولناک خودکش حملے میں زخمی ہونے والی مزید دو طالبات زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔ 12 سالہ شیما ابراہیم اور 15 سالہ مسکان کی شہادت کے بعد جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 10 ہو گئی ہے جن میں 8 معصوم طلبا و طالبات شامل ہیں۔ دلخراش سانحے کے بعد بلوچستان سمیت پورے ملک میں غم و غصے کی فضا قائم ہے، جب کہ کئی شہروں میں شمعیں روشن کر کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
انتہائی نگہداشت میں زیر علاج طالبات دم توڑ گئیں
سیکیورٹی اور طبی ذرائع کے مطابق 12 سالہ شیما ابراہیم اور 15 سالہ مسکان شدید زخمی حالت میں کوئٹہ کے سی ایم ایچ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل تھیں۔ دونوں طالبات کو خودکش حملے میں سر، چہرے اور جسم کے مختلف حصوں پر گہرے زخم آئے تھے۔ اتوار کے روز وہ دورانِ علاج دم توڑ گئیں۔
چھٹی جماعت کی طالبہ شیما ابراہیم کی نماز جنازہ ان کے آبائی علاقے خضدار میں کھیرہ ڈھوری قبرستان میں ادا کی گئی، جس میں ڈپٹی کمشنر خضدار، اعلیٰ فوجی و سول افسران، مقامی عمائدین، اساتذہ، اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جنازے کے موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور ماحول رقت آمیز مناظر سے بھرپور تھا۔
خودکش حملے کی تفصیلات
یہ افسوسناک واقعہ 21 مئی بروز بدھ کو خضدار کے زیرو پوائنٹ کے قریب کوئٹہ-کراچی ہائی وے پر پیش آیا، جب آرمی پبلک اسکول کی بس طلبا کو لے کر صبح کے وقت کینٹ میں واقع اسکول جا رہی تھی۔ اسی دوران ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی اسکول بس سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں خوفناک دھماکہ ہوا۔
ابتدائی طور پر بس ڈرائیور، ہیلپر اور تین طالبات—ثانیہ سومرو، حفظہ کوثر، اور عیشا سلیم—موقع پر ہی شہید ہو گئیں، جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں بڑی تعداد طلبا کی تھی۔
زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد خضدار کے فوجی اسپتال میں دی گئی، بعد ازاں کئی شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ تاہم گزشتہ چار روز کے دوران مزید پانچ طلبا دورانِ علاج دم توڑ گئے جن میں حیدر، ملائکہ، سحر سلیم، شیما ابراہیم، اور مسکان شامل ہیں۔
تحقیقات اور سیکیورٹی صورتحال
خضدار پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے مطابق یہ ایک منظم خودکش کار بم حملہ تھا۔ سیکیورٹی ادارے جائے وقوعہ سے ملنے والے مبینہ حملہ آور کے جسمانی اعضا ڈی این اے تجزیے کے لیے روانہ کر چکے ہیں۔ تاحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
تاہم سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے، جس نے مبینہ طور پر اپنی پراکسی تنظیم کے ذریعے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی حکام نے اس ضمن میں بھارت پر الزامات عائد کیے ہیں، جنہیں بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔
ملک بھر میں غم، مظاہرے اور اظہار یکجہتی
اس دل دہلا دینے والے واقعے پر پورے ملک میں سوگ کی فضا ہے۔ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں مختلف تقاریب کا اہتمام کیا گیا جن میں شہدا کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا کی گئی اور شمعیں روشن کی گئیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا و اساتذہ نے شہدا کے لیے خصوصی دعائیں کیں، جب کہ شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا، جن میں اس سفاکانہ کارروائی کی شدید مذمت کی گئی۔
وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم شخصیات کا اظہارِ افسوس
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے واقعے پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "معصوم اور بے گناہ بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔” انہوں نے شہدا کے خاندانوں سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا، اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
اسی طرح وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ، انسانی حقوق تنظیموں، اور سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس واقعے کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔