
غزہ کی جبری ہجرت سے یوکرین میں امن تک … ٹرمپ کے دھماکا خیز مواقف کا سلسلہ
ٹرمپ کے متنازع اور اشتعال انگیز بیان نے مصر کو ایک متبادل منصوبہ وضع کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ منصوبہ رواں ماہ کے اواخر میں ایک چھوٹے عرب سربراہ اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔
گذشتہ ماہ 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھماکا خیز اور چونکا دینے والے بیانات کی روش اپنائی ہوئی ہے۔
غزہ کی پٹی پر قبضے سے لے کر رعائتیں پیش کر کے یوکرین کو روس کے ساتھ امن کی طرف مائل کرنے تک ، ٹرمپ نے کئیف میں اپنے اتحادیوں اور یورپ میں بعض حریفوں کے راستے پر دھماکا خیز مواقف کے بم اچھال دیے۔
ٹرمپ نے کئی عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی ہمسایہ ممالک بالخصوص مصر اور اردن جبری ہجرت سے متعلق ان کے منصوبے کا جواب دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک عرب ممالک کو ایک موقع دے گا تا کہ وہ غزہ کے حوالے سے کسی متبادل منصوبے تک پہنچ جائیں۔ اس سے قبل عرب ممالک نے تباہ حال غزہ کی پٹی سے مقامی آبادی کی جبری ہجرت اور پوری پٹی پر امریکی کنٹرول سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
جمعرات کی شام امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں روبیو کا مزید کہنا تھا کہ اگر عرب ممالک کے پاس غزہ کے حوالے سے بہتر منصوبہ ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
ٹرمپ کے متنازع اور اشتعال انگیز بیان نے مصر کو ایک متبادل منصوبہ وضع کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ منصوبہ رواں ماہ کے اواخر میں ایک چھوٹے عرب سربراہ اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔
ادھر یورپی ممالک نے غزہ کی طرح روس یوکرین بحران کے حل کے لیے بھی ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے کے خد و خال کو مسترد کر دیا ہے۔ ان ممالک کے نزدیک دونوں ملکوں کے بیچ مذاکرات شروع ہونے سے قبل روس کو رعائتیں پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
البتہ نیٹو اتحاد کے سکریٹری جنرل مارک روٹے نے آج جمعے کے روز کہا کہ یورپی ممالک کو یوکرین میں امن کے حوالے سے اپنے منصوبے پیش کرنا چاہئیں۔ روٹے میونخ میں سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر بات کر رہے تھے۔
اسی طرح فرانس کے صدر نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ جلد حرکت میں آ کر اپنی عسکری، دفاعی اور اقتصادی صلاحیتوں کو مضبوط بنائے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے نیٹو اتحاد میں یوکرین کی شمولیت کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا تھا۔ انھوں نے عندیہ تھا کہ یوکرین کی بعض اراضی سے دست برداری اور 2014 سے پہلے کی سرحدی حدود پر عدم واپسی کا امکان ہے۔ یہ موقف فروری 2022 سے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوشش کا حصہ ہے۔