پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کو بھی وطن واپس جانا ہوگا، پاکستان

بعض مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان واپس جانے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے انہیں وقت دیا جائے۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان):‌ حکومت پاکستان نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کو بھی وطن واپس جانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے 31مارچ کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی ہے جس کے بعد ملک بدری آپریشن شروع کیا جائے گا۔

پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں جو صورتِ حال سامنے آئی ہے اس میں ضروری ہو گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھجوایا جائے۔ ان کی پاکستان میں موجودگی سے سیکیورٹی خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

بعض مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان واپس جانے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے انہیں وقت دیا جائے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی طرف سے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو واپس بھجوانے کے فیصلے پر اب تک کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا۔

لیکن جنوری میں راولپنڈی اسلام آباد سے افغان مہاجرین کو نکالے جانے کے اعلان پر یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ افغان باشندے جنہیں افغانستان میں خطرہ ہے، انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔

یو این ایچ سی آر کی پاکستان میں نمائندہ فلیپا کینڈلر نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی میزبانی کی روایت کو برقرار رکھے اور ان افراد کو جنہیں مدد کی ضرورت ہے، بالخصوص بچوں اور خواتین کو مدد فراہم کی جائے۔

لیکن اس حوالے سے پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان افراد کو واپس بھجوایا جائے گا۔

پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے بیان کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ اب قومی قیادت نے افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں کو بھی 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ باوقار واپسی کے لیے پہلے ہی مناسب وقت دیا جا چکا ہے۔ یکم اپریل 2025 سے بےدخلی کا عمل شروع کر دیا جائےگا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بے دخلی کے دوران کسی سے ناروا سلوک نہیں کیا جائےگا، واپس جانے والوں کے لیے خوراک اور طبی سہولیات کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانے کا عمل نومبر 2023 میں نگراں حکومت کے وقت شروع کیا گیا تھا اور مختلف بارڈرز سے لاکھوں افراد وطن واپس بھجوائے جاچکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر آفریدی کہتے ہیں کہ اب حکومت نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر کو واپس جانے کا کہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا یہ وہ افغان مہاجرین ہیں جنہیں 2017 میں حکومت نے رجسٹرڈ کیا تھا۔ ان کی تعداد آٹھ لاکھ 80 ہزار ہے اور یہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2007-2006 میں جو افراد رجسٹر ہوئے ان کے پاس پی او آر کارڈ یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈ موجود ہیں۔ ان کو جون تک کی مہلت دی گئی ہے۔ ان کی تعداد 13لاکھ کے قریب ہے۔

قیصر آفریدی نے کہا کہ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے بیشتر افراد خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں جہاں یہ کل تعداد کا 52فی صد ہیں۔ تین لاکھ کے قریب بلوچستان اور کچھ پنجاب، سندھ اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔

یو این ایچ سی آر نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اتنے کم وقت میں اسلام آباد، راولپنڈی سے افغان شہریوں کو نکالے جانا درست نہیں کیوں کہ بہت سے افغان شہریوں کے بچے یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اوراتنی جلدی میں یہاں سے نکلنے میں ان کی تعلیم کا حرج ہوگا۔

لیکن اب حکومت نے صرف اسلام آباد نہیں بلکہ ملک بھر سے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو نکلنے کا کہہ دیا ہے۔ اس بارے میں یو این ایچ سی آر جلد اپنا مؤقف دے گا۔

قیصر خان آفریدی نے کہا کہ پہلے سے موجود کیٹیگریز کے علاوہ ایک اور کیٹیگری بھی ہے جس میں 2021 میں نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے۔

قیصر خان نے کہا کہ اس بارے میں مستند ڈیٹا موجود نہیں البتہ پاکستان کے مختلف وزرا کے بیانات کے مطابق ان کی تعداد چھ لاکھ ہے۔ ان میں سے کچھ افراد کے پاس ویزہ تھا اور اب ان میں سے بیشتر کا ویزہ ختم ہوچکا ہے۔

ان چھ لاکھ افراد میں سے چار لاکھ 80 ہزار نے گزشتہ کچھ عرصے میں یواین ایچ سی آر سے رابطہ کیا ہے جس کے بعد ہم نے ویری فکیشن کا عمل شروع کیا اور دو لاکھ دس ہزار افراد کی تصدیق کی گئی تھی۔ ان میں صحافی، میوزیشن ،سابق حکومتی اہلکار، مختلف لسانی اور اقلیتی حلقوں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

یو این ایچ سی آر نے ان افراد کے حوالے سے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا اور ان کو فی الحال رہنے کی اجازت دینے کا کہا ہے۔

ان میں سے کئی افراد نے مختلف ممالک کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ کرکے خود کو رجسٹر کروایا ہے۔

قیصر خان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو ایک اندازے کے مطابق تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جن میں سے 25لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ہیں جن کے بارے میں مکمل معلومات موجود ہیں جب کہ غیرقانونی افراد بھی موجود ہیں۔

سن 2023 میں غیرملکیوں کو واپس بھجوانے کی جو کارروائی شروع کی گئی تھی اس میں ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب افراد واپس گئے تھے اور ان میں سے90 فی صد غیرقانونی مقیم افغان مہاجرین تھے۔

پاکستان کی طرف سے سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے قیصر خان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں یو این ایچ سی آر کا واضح مؤقف ہے کہ جو افراد کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف لازمی کارروائی کی جائے۔

افغان مہاجرین کی طرف سے اس صورتِ حال میں پاکستان کی عدالتوں سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے اور پاکستان کی مقامی عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر ایک درخواست کے جواب میں جنوری میں حکومت نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ دستاویزات رکھنے والے کسی شخص کو ڈی پورٹ نہیں کیا جائے گا۔

اس بارے میں سپریم کورٹ میں افغان مہاجرین کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں کہ یہ ایک انسانی المیہ ہے کہ وہ افراد جو اسی ملک میں پیدا ہوئے، یہاں ہی بڑے ہوئے اور انہوں نے افغانستان دیکھا بھی نہیں اور انہیں اس ملک کا شہری قرار دے کر یہاں سے ملک بدر کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت مختلف عدالتوں میں ان مہاجرین سے متعلق کیس پیش کررہے ہیں کہ انہیں یہاں رہنے کا حق دیا جائے۔

اُن کے بقول یہ مہاجرین 40 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور ابھی بھی افغانستان میں جو صورتِ حال ہے اس کے مطابق یہ وہاں پر محفوظ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اگر کوئی بھی افغان شہری کسی جرم میں ملوث ہے تو اس کی خلاف کارروائی سے کوئی بھی نہیں روکتا اور اس کے خلاف لازمی ایکشن لیا جانا چاہیے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button