
ایک حکومتی ترجمان شاہد رند کے مطابق پہلا واقعہ صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پیش آیا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم اس کا شبہ بلوچ علیحدگی پسندوں پر ہی کیا جا رہا ہے جو اس صوبے میں سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو اکثر نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
وزیر اعظم کی طرف سے حملے کی مذمت
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس حملے کی مذمت کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف لڑائی‘‘ اس کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔
بلوچستان میں طویل عرصے سے مختلف علیحدگی پسند گروپ پر تشدد کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ انہی گروپوں میں کالعدم، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) بھی شامل ہے، جسے امریکہ نے 2019ء میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد حکومت ان کے حقوق پامال کر رہی ہے اور صوبے کے معدنی ذرائع سے مقامی آبادی کو فائدہ نہیں پہنچا رہی۔
پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس صوبے سے بغاوت کو کچل دیا ہے تاہم سکیورٹی فورسز کے علاوہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد اکثر علیحدگی پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
پولیو ورکرز کا اغوا
ادھر صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلح افراد نے ایک گاڑی پر حملہ کر کے دو پولیو ورکرز کو اغواء کر لیا۔ ایک مقامی پولیس اہلکار زاہد خان کے مطابق یہ ورکرز ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک طبی مرکز سے واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ یہ اغوا ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کے آغاز سے قبل سامنے آیا ہے۔ 21 اپریل سے شروع ہونے والی اس مہم میں 45 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکسین کے قطرے پلائے جانا ہیں۔

فوری طور پر یہ بات معلوم نہی ہوئی کہ اس اغوا کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، تاہم ماضی میں حکام اس طرح کے حملوں کی ذمہ داری عسکریت پسندوں پر عائد کرتے رہے ہیں، جن کے خیال میں پولیو کے قطروں کی آڑ میں مغربی طاقتیں مسلمان بچوں کو بانجھ بنانا چاہتی ہیں۔