
لندن (عالمی ڈیسک) — جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے شاہی خاندان کی دعوت پر ونڈسر کیسل میں قدم رکھا، تو جہاں شاہی پرتپاک خیرمقدم کا اہتمام کیا گیا، وہیں عوامی سطح پر ایک بالکل مختلف منظر نظر آیا۔ لندن کی سڑکوں پر ہزاروں مظاہرین جمع ہو گئے، جو ٹرمپ کی پالیسیوں، بیانیے، اور بین الاقوامی سطح پر ان کی متنازعہ حیثیت کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔
اگرچہ برطانوی حکومت اور سیکیورٹی ادارے کوشش کر رہے تھے کہ ٹرمپ کو عوامی ناپسندیدگی سے دور رکھا جائے، لیکن مظاہرین کی پرزور موجودگی اور واضح پیغام دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
ٹرمپ کی آمد پر عوامی غصہ: "خوف اور تقسیم کی سیاست کی برطانیہ میں کوئی جگہ نہیں”
ٹرمپ کے لندن پہنچنے کے فوراً بعد ہی، عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ برطانوی اخبار "دی گارڈین” میں لندن کے میئر صادق خان نے ایک تحریر شائع کی جس میں ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ "دنیا بھر میں انتہا پسند، دائیں بازو کی سیاست کے شعلے بھڑکا رہے ہیں” اور لندن کے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اس سیاست کو مسترد کریں۔
مظاہرین نے "ٹرمپ کو پھینک دو”, "نفرت بند کرو” جیسے نعرے لگائے اور ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے جن میں ٹرمپ کو جنگی مجرم، نسل پرست اور بدانتظامی کی علامت قرار دیا گیا۔ بہت سے مظاہرین نے روس-یوکرین تنازعہ، اسرائیل-غزہ جنگ، اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات کو بھی اپنے احتجاج کا حصہ بنایا۔
"لیڈ بائی ڈونکیز” کا طنزیہ احتجاج: ونڈسر کیسل کے ساتھ ایپسٹین-ٹرمپ ویڈیو پروجیکشن
ٹرمپ کے دورۂ ونڈسر کے موقع پر ایک احتجاجی گروپ "Led By Donkeys” نے ایک حیران کن اور علامتی قدم اٹھایا۔ گروپ نے ٹرمپ اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین کے درمیان تعلقات کی ویڈیوز کو ونڈسر کیسل کے پہلو میں پروجیکٹ کر کے پوری دنیا کو ایک سیاسی پیغام دیا۔
انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں کہا گیا:
"ارے ڈونلڈ، ونڈسر کیسل میں خوش آمدید۔”
اس ویڈیو کو "ٹرمپ اور ایپسٹین کی کہانی” کا عنوان دیا گیا، جس کا مقصد امریکی صدر کی اخلاقی پوزیشن پر سوال اٹھانا تھا۔ اس واقعے کے بعد چار افراد کو "بدنیتی پر مبنی مواصلات” کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جو گروپ کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ان کے کسی کارکن کو گرفتار کیا گیا ہو۔
عوامی ناپسندیدگی کے اعداد و شمار: 61 فیصد برطانوی ٹرمپ کے خلاف
ٹرمپ کے دورے سے قبل Ipsos کی جانب سے جاری کردہ ایک رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، 61 فیصد برطانوی شہری ٹرمپ کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح اشارہ تھے کہ عوامی سطح پر ٹرمپ کو کسی گرمجوشی کی امید نہیں ہونی چاہیے۔
حکومت نے ان مظاہروں سے بچنے کے لیے ان کے تمام سرکاری پروگراموں کو بند دروازوں کے پیچھے رکھنے کی حکمت عملی اپنائی۔ تاہم، عوامی احتجاج اور میڈیا کوریج نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
سیاسی، نسلی اور عالمی بیانیے کے خلاف آواز: مظاہرین کے پیچھے محرکات
بین جمال، فلسطین یکجہتی مہم کے ڈائریکٹر نے CNN سے گفتگو میں کہا:
"ہم یہاں وسیع وجوہات کی بنیاد پر موجود ہیں، کیونکہ جس سیاست کی ڈونلڈ ٹرمپ نمائندگی کرتے ہیں، وہ نفرت، نسل پرستی اور تقسیم پر مبنی ہے۔ یہ وہ سیاست ہے جو زمین اور انسانیت کے مفاد کے خلاف ہے۔”
احتجاج میں شامل افراد نے صرف ٹرمپ کی امریکی پالیسیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ ان کے عالمی بیانیے، مہاجرین، اسلاموفوبیا، ماحولیاتی بدانتظامی اور جنگوں میں مداخلت جیسے ایشوز پر بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا۔
سیاسی طنز، فن اور تخلیق کاری سے مزین مظاہرے
مظاہرے کے دوران دلچسپ اور تخلیقی انداز بھی دیکھنے کو ملے۔ کچھ مظاہرین نے پوتن، نیتن یاہو، اور اینڈریو ٹیٹ جیسے متنازعہ عالمی رہنماؤں کا روپ دھارا، اور ان کے ساتھ طنزیہ بینرز اٹھائے جن پر "ٹرمپ کے لیے بدانتظامی” اور "جنگی مجرم” جیسے الفاظ درج تھے۔
یہ احتجاج صرف سیاسی نعرہ بازی نہیں، بلکہ ایک ثقافتی اور نظریاتی تحریک کا بھی اظہار تھا، جو برطانیہ جیسے جمہوری معاشرے میں شہریوں کے حقِ اختلاف کی علامت بن گئی۔
ٹرمپ کا دورہ محدود مگر متنازعہ
ٹرمپ کا یہ دورہ شاہی خاندان کے ساتھ لنچ، وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر سے ملاقات اور چیکرز میں قیام تک محدود رہا۔ ان کے تمام پروگرام سخت سیکیورٹی کے درمیان بند مقامات پر رکھے گئے تاکہ کسی قسم کا عوامی ٹکراؤ نہ ہو۔
تاہم، ان کے طیارے کے لندن اسٹینسٹڈ ایئرپورٹ پر اترتے ہی جو مظاہرے شروع ہوئے، وہ ان کے دورے کے ہر مرحلے پر سائے کی طرح موجود رہے۔
اختتامیہ: ٹرمپ کے دورے نے برطانوی عوام کو ایک بار پھر متحد کر دیا — مخالفت میں
برطانیہ میں ٹرمپ کا دورہ صرف ایک سفارتی موقع نہیں تھا، بلکہ ایک علامتی موقع بھی تھا جہاں عوام نے عالمی سیاست کے بعض پہلوؤں کے خلاف اپنے جذبات کا واضح اظہار کیا۔
یہ مظاہرے اس بات کا بھی اشارہ تھے کہ عوام کی آواز اب محض ووٹ تک محدود نہیں رہی— وہ سڑکوں پر آ کر، تخلیقی انداز میں، سیاسی شعور کے ساتھ، اپنی بات کہنے کے لیے پرعزم ہیں۔
"نفرت کا جواب اتحاد سے، بدانتظامی کا جواب شعور سے، اور سیاست کا جواب عوام سے” — یہ پیغام لندن کی سڑکوں پر بلند تھا، جب وائٹ ہاؤس کا سابق مکین، برطانیہ کی شاہی زمین پر قدم رکھ رہا تھا۔