
قطر میں اسلامی سربراہی اجلاس، اسرائیلی حملے کی شدید مذمت، نیتن یاہو کا حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا اعلان
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اسرائیلی حملے کو ’’بزدلانہ اور غدارانہ‘‘ قرار دیا۔
دوحہ (خصوصی رپورٹ) – قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اہم اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران خطے کی صورت حال ایک بار پھر کشیدگی کی انتہا کو پہنچ گئی ہے، جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل، حماس کے رہنماؤں پر "جہاں کہیں بھی ہوں” حملے جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی مقام پر موجود حماس قیادت کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔
یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب قطر نے 9 ستمبر کو دوحہ میں کیے گئے اسرائیلی فضائی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں فلسطینی گروہ حماس کے پانچ ارکان جاں بحق ہوئے جبکہ قطر کی داخلی سکیورٹی فورسز کا ایک رکن بھی ہلاک ہوا۔ تاہم حماس کی اعلیٰ قیادت حملے میں محفوظ رہی۔
دوحہ اجلاس میں سخت مؤقف
دوحہ میں منعقدہ اس اہم اجلاس میں عرب اور اسلامی ممالک کے متعدد رہنماؤں نے شرکت کی، جس کا مقصد اسرائیل کے حالیہ اقدامات، خصوصاً قطر میں کیے گئے فضائی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنا تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اسرائیلی حملے کو ’’بزدلانہ اور غدارانہ‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ حملہ ہوا، تو حماس کی قیادت قطر اور مصر کی طرف سے پیش کردہ امریکی جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہی تھی، جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی تھا۔
شیخ تمیم نے کہا، "اس حملے کا مقصد نہ صرف حماس کی قیادت کو ختم کرنا تھا، بلکہ ایک سنجیدہ سفارتی عمل کو سبوتاژ کرنا بھی تھا جو خطے میں امن کے لیے جاری تھا۔”
عالمی ردعمل اور امریکی کردار
قطر میں اسرائیلی حملے پر دنیا بھر میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ متعدد اسلامی ممالک نے اسے قطر کی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات اور اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب یروشلم میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے دوران نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ابھی تک حملے کے تمام نتائج کا تجزیہ کر رہے ہیں، تاہم اسرائیل "اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔”
مارکو روبیو، جو اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر ہیں، نے واضح کیا کہ امریکہ قطر کے ساتھ مل کر غزہ بحران کے حل کے لیے کام کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا، "قطر غزہ میں امن اور استحکام کے قیام میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ حماس کو غیر مسلح کرنا، یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار کرنا، قطر کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔”
انہوں نے مزید کہا، "اسی لیے ہم قطر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا تعمیری کردار جاری رکھے۔”
ٹرمپ کا مؤقف
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کے امور پر دوبارہ آواز بلند کی ہے، نے قطر میں اسرائیلی حملے کو "ناقابل قبول” قرار دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، "اسرائیل کو اس قسم کے حملوں میں غیر معمولی احتیاط برتنی چاہیے، کیونکہ یہ نہ صرف خطے میں اس کے تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ اس کی اسٹریٹجک شراکت داری پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔”
خلیجی ممالک کا ردعمل اور خطے میں نیا اتحاد
اسرائیلی حملے کے بعد خلیجی ممالک کے درمیان ایک نیا اتحاد بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ قطر، کویت، سعودی عرب، اور عمان نے اس واقعے کو خطے کی سالمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات، جس نے 2020 میں اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تھے، اس واقعے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے پر مجبور نظر آ رہا ہے۔
خلیجی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حملہ ایک ایسا موڑ ثابت ہو سکتا ہے جو خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ سرد مہری کی طرف دھکیل دے۔
حماس کا مؤقف
حماس کے ترجمان نے حملے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ ان کے پانچ ارکان کی شہادت ہوئی، لیکن قیادت محفوظ رہی۔ ترجمان کا کہنا تھا، "یہ حملہ ہماری قیادت یا تحریک کو کمزور نہیں کر سکتا، بلکہ یہ ہماری مزاحمت کو مزید مضبوط کرے گا۔”
نتیجہ
قطر میں ہونے والے اسرائیلی حملے نے نہ صرف خطے میں ایک نئی سفارتی کشیدگی کو جنم دیا ہے بلکہ اسلامی دنیا کو ایک بار پھر فلسطینی مسئلے پر متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ آیا یہ اتحاد اسرائیل پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ دوحہ سمٹ کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی حرکیات میں ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے۔



