
خصوصی رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز:
امریکی صدر کی جانب سے پناہ گزینوں کی امریکہ آمد کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کیے جانے کے فیصلے نے پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان پناہ گزینوں، خاص طور پر افغان لڑکیوں اور خواتین کو شدید بے چینی، خوف اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف اُن کے خوابوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے بلکہ اُن کے لیے ایک ایسے اندوہناک مستقبل کی نوید بھی ہے جس کی طرف وہ لوٹنا نہیں چاہتیں — ایک ایسا وطن جہاں ان پر تعلیم، ملازمت اور اظہار کی بنیادی آزادیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔
پندرہ ہزار سے زائد افغان پناہ گزین "منتظر” — لیکن کب تک؟
اقوامِ متحدہ کے اداروں اور عالمی تنظیموں کے مطابق، اسلام آباد میں تقریباً 15,000 افغان شہری اس وقت زندگی کے ایک کربناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ان میں وہ افغان بھی شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں نیٹو افواج، امریکی مشنز، مغربی این جی اوز، صحافت، موسیقی یا انسانی حقوق کے شعبوں میں کام کیا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی جان بچا کر پاکستان کا رخ کیا۔
مگر چار سال گزر جانے کے باوجود، یہ افراد اب بھی کسی محفوظ ملک کی منتقلی کے منتظر ہیں۔ وہ دن رات اس اُمید میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کوئی سفارت خانہ اُن کی آواز سنے گا، کوئی ملک انہیں قبول کرے گا، اور وہ ایک محفوظ، آزاد اور باوقار زندگی گزار سکیں گے۔
افغان خواتین: سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ
ان ہزاروں افغان پناہ گزینوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ نوجوان لڑکیوں اور خواتین کا ہے۔ ان کے لیے وطن واپسی صرف خوف اور تاریکی کا سفر ہے، جہاں نہ صرف تعلیم بند ہے بلکہ ان کی زندگی کے ہر دائرے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
15 سالہ افغان لڑکی شیمہ کی کہانی اس خوف، امید اور بے یقینی کی گواہی دیتی ہے۔ شیمہ، جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ 2022ء میں پاکستان پہنچی تھی، امریکہ میں نئی زندگی شروع کرنے ہی والی تھی کہ عین وقت پر امریکی صدر کی پالیسی نے اس کی پرواز روک دی۔ اب وہ اسلام آباد کے ایک ’’محفوظ گھر‘‘ میں چھپ کر رہ رہی ہے اور صرف کچن میں گانے کی مشق کر سکتی ہے تاکہ آواز باہر نہ جائے۔
"کچن میں آواز بہت اچھی آتی ہے،” شیمہ نے ایک انٹرویو میں کہا۔ وہ اب بھی باب ڈیلن کا مشہور گانا The Times They Are A-Changin’ گاتی ہے، مگر وقت شاید اتنی تیزی سے نہیں بدل رہا جتنا وہ چاہتی ہے۔
پناہ کی امید، مگر تحفظ کی ضمانت نہیں
افغان باشندوں کو امریکہ، کینیڈا، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں منتقل کیے جانے کی متعدد یقین دہانیاں دی گئیں، مگر اکثر ڈیڈ لائنز پر عمل نہ ہونے کے باعث صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
ایک پاکستانی سرکاری اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ، "یہ عبوری کیمپ نہیں ہے جو غیر معینہ مدت تک قائم رہے،” اور اس وقت تک ان افراد کو قیام کی اجازت نہیں دی جا سکتی جب تک مغربی ممالک ان کی منتقلی کی واضح گارنٹی نہ دیں۔
2023ء میں جب پاکستان نے غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو امریکی سفارت خانے نے کچھ افغانوں کی فہرست حکومت کو دی کہ انہیں نہ چھیڑا جائے، مگر یہ تحفظاتی معاہدے بھی اب ختم ہو چکے ہیں۔
خوف کے سائے میں زندگی
پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں کو اب ملک بدری کا مستقل خطرہ لاحق ہے۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے اعلانات، سڑکوں، گھروں اور دفتروں سے افغان باشندوں کی گرفتاریاں، اور سرکاری نگرانی نے ان کے روز و شب کو خوفناک خواب میں بدل دیا ہے۔
متعدد افغان خاندان اب اپنی شناخت چھپاتے ہوئے رہ رہے ہیں، اپنی زبان آہستہ بولتے ہیں اور گھروں میں محدود ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
خود کو مصروف رکھ کر خوف پر قابو پانے کی کوشش
اس تمام دباؤ کے باوجود، افغان لڑکیاں مایوسی سے بھاگنے کے لیے روزانہ کی سخت روٹین اپنا رہی ہیں — فارسی میں گانے سیکھنا، انگریزی زبان کی مشق، اور کتابوں کا مطالعہ ان کی امیدوں کو زندہ رکھنے کی کوششیں ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار ابراہیم باحث کے مطابق، پاکستان کی حالیہ کارروائیوں کا مقصد طالبان پر دباؤ ڈالنا اور بین الاقوامی برادری کو یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں سنجیدہ ہے۔
بین الاقوامی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان؟
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری ردِعمل نہ آنے کی وجہ سے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مغربی ممالک ان کی قربانیوں، خدمات اور خطرات کو تسلیم کرنے کے باوجود انہیں فراموش کر چکے ہیں۔
اختتامیہ: کیا وقت واقعی بدل رہا ہے؟
شیمہ جب "The Times They Are a-Changin’” گاتی ہے، تو یہ صرف ایک گیت نہیں، بلکہ امید، احتجاج اور پکار کا استعارہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ:
کیا واقعی وقت بدل رہا ہے؟
کیا دنیا ان بے زبان پناہ گزینوں کی پکار سن پائے گی؟
کیا شیمہ کو کبھی نیویارک کے کسی اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی آواز بلند کرنے کا موقع ملے گا؟
یہ سوالات ہزاروں افغان لڑکیوں کی زندگی کے مرکز میں موجود ہیں — اور ان کے جوابات ابھی تک خاموشی میں دفن ہیں۔



