
کشمیر پر بھارت کا شب خون( یوم سیاہ) …….پیر مشتاق رضوی
پاکستانی فوج کی کشمیر میں داخل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا اور پاکستانی حکومت نے اسے روکنے کے لیے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا
کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں، جو بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز اور غاصبانہ قبضے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن 1947ء میں بھارتی بری اور فضائی افواج کے کشمیر میں داخل ہونے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی پامالی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔یوم سیاہ منانے کا مقصد عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل حوالے سے کشمیریوں سے کئے گئے اپنے وعدوں خصوصاً اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔ عالمی ادارے کی قراردادوں میں کشمیریوں کو انکے ناقابل تنسیخ اور مسلمہ حق خودارادیت کی ضمانت فراہم کی گئی تھی
14 اگست 1947ء کو جموں و کشمیر میں آزادی کا جشن منایا گیا تھا۔ اس دن کشمیری عوام نے پاکستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی آزادی کا بھی جشن منایا کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی امید میں آزادی کا جشن منایا تھا، لیکن بعد میں بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور خود مختاری پر شب خون مارا
راجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی 89% اکثریت کے مطابق فیصلہ نہ کرکے ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کے حق خودارادیت کو پامال کیا مجاھدین کشمیر نے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے آزادی کا علم بلند کیا اور جدوجہد آزادی کا آغاز کیا۔
راجہ ہری سنگھ کے یکطرفہ فیصلہ کے نتیجے میں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ پیدا کیا جبکہ ریڈ کلف نے سرحدوں کی تعین میں انتہائی متصبانہ اور بددیانتی سے کام لیاریڈ کلف نے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کو بھارت کو دے دیا، اور بھارت کو کشمیر پر قبضہ کرنے کے لئے زمینی راستہ فراھم کیا گیا۔ اس فیصلے نے کشمیر کے مسٹقل تنازعہ کو جنم دیا۔ جبکہ ریڈ کلف کے فیصلوں پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا دباؤ تھا، جو کہ بھارتی مفادات کے حق میں تھے۔ریڈ کلف نے لاہور کو بھی بھارت کو دینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی بڑا شہر نہ ہو۔ بھارت نے انگریزوں کی ملی بھگت سے بھارت نے کشمیر میں فوجیں 27 اکتوبر 1947ء کو اتاریں، جب مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت کے ساتھ الحاق کی آڑ میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتاریں تاکہ جموں و کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما سکے۔تاہم کشمیری عوام نے اس غیر فطری الحاق کو مسترد کر دیا اکیونکہ قبل ازیں کشمیری مسلم اکثریتی جماعت مسلم کانفرنس نے الحاق پاکستان کی قرارداد 19 جولائی 1947ء کو منظور کی تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیری عوام نے بھارت کے خلاف آزادی کی جدوجہد شروع کر دی کشمیر میں بھارتی فوجوں داخل ہونے پر قائد۔اعظم نے اس وقت باک افواج کے سربراہ جنرل گریسی کو پاکستانی فوج کشمیر میں بھیجنے کا حکم دیا، جب جنرل گریسی نے قائد اعظم کی حکم عدولی کہ اور پاک فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے بریگیڈیئر اکبر خان کو کشمیر میں فوج کی قیادت کرنے کا حکم دیا اور وہ 22 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں داخل ہوئے۔پاکستانی فوج کی کشمیر میں داخل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا اور پاکستانی حکومت نے اسے روکنے کے لیے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی فوج نے کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں اور بڑے علاقے بھارتی فوج کے قبضہ سے آزادکرا لیا اس دوران قبائلی عوام نے کشمیر کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ اکتوبر 1947 میں، قبائلی لشکر نے کشمیر میں داخل ہو کر بھارتی فوج کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ جنگ کشمیر کے الحاق کے تنازعے کے بعد شروع ہوئی تھی۔قبائلی عوام کی شمولیت کے بعد، جنگ کی صورتحال بدل گئی اور بھارتی فوج کو شدید پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ قبائلی لشکر نے سری نگر تک پیش قدمی کی، مسئلہ کشمیر پرپاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوئی، جو 1948 تک جاری رہی۔ اس بھارت نے اپنی پسپائی اور واضح شکست دیکھ کر اقوام متحدہ کا سہارا لیا ، جس پراقوام متحدہ نے مداخلت کی اور جنگ بندی کا اعلان کیا علاوہ ازیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے بارے میں کئی قراردادیں منظور کیں۔ ان میں سے ایک اہم قرارداد 5 جنوری 1949ء کو منظور کی گئی، جس میں کشمیریوں کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948 اور 1949 میں کشمیر کے مسئلے پر کئی قراردادیں منظور کیں، جن میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا- قرارداد 47 (1948ء): جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا- قرارداد 51 (1948ء): جس میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔قرارداد 80 (1950ء): جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا اور استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔قرارداد 91 (1951ء): جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا اور استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا- قرارداد 122 (1957ء): جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا اور استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔قرارداد 123 (1957ء): جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا اور استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔یہ قراردادیں کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے بارے میں اقوام متحدہ کی پالیسی کو ظاہر کرتی ہیں بھارت کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت نہیں دے رہا کیونکہ وہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بھارتی حکومت کا خام خیال ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن کشمیری عوام اسے تسلیم نہیں کرتے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔بھارت کشمیر میں اپنی فوجوں میں آئے روز اضافہ کرتا چلا آیاہے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا وعدہ کیا تھا، لیکن بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔پاکستان اور دیگر ممالک نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت دے اقوام عالم بھارت کی مسلسل ھٹ دھرمی پر خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ بھارت ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے، اور بہت سے ممالک اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی اپنی قرارداوں پر عمدرآمد کرانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ملسل پامالی کر رہا ہے بھارت کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت نہیں دے رہا بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں کر رہا ہے۔ کشمیر میں بھارتی افواج کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک لاکھوں کشمیری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، 1989ء سے اب تک کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں میں تقریباً 70,000 سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اکثر نوجوان، خواتین اور بچے ہیں۔کشمیر میں خواتین کی آبروریزی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، 1989ء سے اب تک کشمیر میں تقریباً 10,000 سے زائد خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے۔یہ اعداد و شمار کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک جھلک ہیں۔
بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کشمیریوں کی آزادی اور خودمختاری پر دوبارہ شب خون مارا ہے ۔اس مذموم اقدام کے بعد، کشمیر میں وسیع پیمانے پر قتل وغارت اور گرفتاریاں، حریت راہنماؤن کی ٹارگٹ کلنگ اور پلوامہ جسے جھوٹے ڈرمے مواصلاتی بلیک آؤٹ، اور انسانی حقوق کی پامالیاں ہوئیں۔ کشمیری عوام نے اس فیصلے کے خلاف شدید مزاحمت کی، پاکستانی حکومت اور عوام نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کا بھر پور اعادہ کیا کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی جاری ہے اور وہ اپنے حق خودارادیت کے لیے لڑ رہے ہیں۔پاکستانی حکومت اور عوام کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی ہر سطح بر اخلاقی ،سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گاکشمیر کی آزادی کے لیے کشمیری عوام کی قربانیاں اور جدوجہد قابل تعریف ہے، اور امید ہے کہ ایک دن کشمیر آزاد ہو گا اور کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کا حق حاصل کر یں گے اور”کشمیر بنے گا پاکستان” ان شاء اللہ !


