
سوڈان کا مسئلہ: ایک تباہ کن خانہ جنگی اور عالمی مفادات کا کھیل……..سید عاطف ندیم
عبد الفتاح البرہان، سوڈان کے فوجی سربراہ، اور محمد حمدان دقلو (حمیدتی)، ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے سربراہ، کے درمیان شدید اختلافات
سوڈان، جو ایک وقت میں افریقہ کے "اناج گھر” اور "سونے کا تیسرا بڑا ذخیرہ” کہلاتا تھا، آج دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا شکار ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود، سوڈان کی موجودہ حالت ایک افسوسناک داستان ہے۔ جنگ، قحط، خانہ جنگی، اور سیاسی کشمکش نے اس ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک وقت میں زرخیز زمینوں، دریائے نیل کی برکتوں، سونے کی کانوں، اور وسیع مویشیوں کی تعداد رکھنے والے ملک کا یہ حال کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب سوڈان کی حالیہ تاریخ میں چھپاہے، جہاں عالمی اور داخلی مفادات کے پیچیدہ جھرمٹ نے سوڈان کو جنگ اور تباہی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔
سوڈان کی حالیہ خانہ جنگی کی جڑیں 2019 میں ہیں جب عوامی احتجاج اور حکومت مخالف تحریک کے نتیجے میں عمر البشیر کی 30 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد سوڈان میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی، جس میں فوج اور سویلین رہنماؤں کے درمیان اقتدار کی تقسیم کے معاہدے پر اتفاق کیا گیا۔ لیکن جلد ہی اس عبوری حکومت کے اندر سیاسی کشمکش شروع ہو گئی، جس کی اصل وجہ فوج کے مختلف دھڑوں اور ان کے درمیان اقتدار کی جنگ تھی۔
عبد الفتاح البرہان، سوڈان کے فوجی سربراہ، اور محمد حمدان دقلو (حمیدتی)، ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے سربراہ، کے درمیان شدید اختلافات اور فوج کی انضمام کے حوالے سے تنازعات نے ملک کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دیا۔
سوڈان کی فوج (SAF) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان اقتدار کی کشمکش اور فوجی بالادستی کی جنگ نے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ اگرچہ دونوں فورسز ابتدا میں بشیر کے حامی تھے، مگر بعد ازاں 2019 میں بشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں طاقتوں کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے۔
ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) اصل میں ایک قبائلی ملیشیا تھی جس کا قیام عمر البشیر کے دور میں ہوا۔ یہ فورس بنیادی طور پر دارفور کی جنگوں میں سرگرم تھی، اور بعد میں اسے نیم فوجی حیثیت دے کر جنرل حمیدتی کے ماتحت کر دیا گیا۔ جب فوج اور سویلین حکومت کے درمیان اقتدار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آیا، تو RSF اور SAF دونوں گروہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، جس کے نتیجے میں اپریل 2023 میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
اپریل 2023 میں یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب دونوں عسکری قوتیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئیں۔ ابتدائی طور پر یہ لڑائی صرف دارالحکومت خرطوم تک محدود تھی، مگر جلد ہی اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خاص طور پر مغربی خطہ دارفور میں یہ لڑائی نسلی تشویشات کے ساتھ شدت اختیار کر گئی، جس کے نتیجے میں دارفور کے شہر الفاشر کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔
سوڈان کی موجودہ خانہ جنگی نے ایک تباہ کن انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 12,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 14 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں کی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، غذائی قلت شدت اختیار کر چکی ہے، اور پینے کے پانی کی فراہمی ناپید ہو چکی ہے۔ سوڈان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر دارفور، نیالا، الفاشر، اور الجنینہ میں شدید قحط اور بیماریوں نے انسانی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔
خاص طور پر الفاشر میں RSF کی جانب سے عام شہریوں کا قتل عام، لوٹ مار، اور دیہاتوں کو جلا دینے جیسے جرائم نے اس شہر کو اجڑنے کی ایک واضح مثال بنا دیا ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، یہ جنگی جرائم اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ مقامی لوگ مردار تک کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سوڈان کی خانہ جنگی میں عالمی طاقتوں کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سوڈان کی جغرافیائی حیثیت، خاص طور پر بحر احمر اور ریڈ سی کے قریب ہونے کی وجہ سے عالمی طاقتیں یہاں اپنی طاقت کے کھیل میں شامل ہیں۔
-
متحدہ عرب امارات (UAE): UAE نے RSF کی مدد کی ہے، اس کے ہتھیاروں کی سپلائی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ UAE کا مفاد سوڈان کی سونے کی کانوں، زرعی زمینوں اور بحری بندرگاہوں میں ہے۔
-
مصر: مصر سوڈان کی فوج کے حامی ہے، کیونکہ اسے خوف ہے کہ RSF کی کامیابی سے نیل دریا کے پانیوں کی تقسیم پر اثر پڑ سکتا ہے۔
-
سعودی عرب: سعودی عرب بظاہر سوڈان میں ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن دراصل سعودی مفادات بھی سوڈان کی سیاست میں گہرے ہیں۔
-
روس: روس کی دلچسپی سوڈان کے بحری اڈوں میں ہے، اور اس نے ویگنر گروپ کے ذریعے سوڈان میں سونے کی تجارت میں حصہ ڈالا ہے۔
-
امریکہ اور اسرائیل: امریکہ سوڈان کو روس اور چین کے اثر و رسوخ سے بچانا چاہتا ہے، جبکہ اسرائیل سوڈان کو مشرقی افریقہ میں اپنے اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
سوڈان کی خانہ جنگی کے اثرات کا ایک اور پہلو ملک کی ممکنہ تقسیم ہے۔ اس وقت سوڈان کی مختلف جغرافیائی حدود مختلف فوجی گروپوں کے قبضے میں ہیں:
-
شمالی اور مشرقی سوڈان: سوڈانی فوج کے زیرِ اثر ہے۔
-
مغربی سوڈان: دارفور اور الفاشر میں RSF کا قبضہ ہے۔
اگر جنگ اسی شدت سے جاری رہی، تو سوڈان کے کئی حصے الگ ہو سکتے ہیں۔ شمال فوج کے زیرِ اثر رہے گا، مغربی خطہ RSF کے قبضے میں آئے گا، اور مشرقی سوڈان کسی بین الاقوامی نگرانی میں چلا جائے گا۔
سوڈان کی موجودہ خانہ جنگی ایک عذاب ہے جس نے اس ملک کو اپنی سرزمین، عوام، اور دولت کے لیے جنگ کے شعلوں میں جھلسا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں، وہیں دوسری طرف سوڈان کے عوام اس سیاسی اور فوجی کھیل کا ایندھن بن چکے ہیں۔ جنگ کے یہ شعلے نہ صرف سوڈان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
سوڈان کا مسئلہ صرف اس کی داخلی سیاست تک محدود نہیں رہا، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس بحران کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ سوڈان کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کو یکجا ہو کر کام کرنا ہوگا تاکہ اس تباہی کا شکار ہونے والے لاکھوں شہریوں کو سکونت، مدد، اور انصاف فراہم کیا جا سکے۔
سوڈان کی خانہ جنگی ایک پیچیدہ بحران ہے جس کی جڑیں سیاسی اقتدار کی کشمکش میں ہیں۔ فوجی قوتوں کی داخلی لڑائیاں، بیرونی مداخلت، اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے ملک کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود سوڈان آج دنیا کے بدترین انسانی المیوں کا شکار ہے، اور اس کا مستقبل مزید بحرانوں کے سائے میں دھندلا دکھائی دیتا ہے۔


