کالمزپیر مشتاق رضوی

کشمیر کا یوم الحاق پاکستان !….. پیر مشتاق رضوی

کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جاتا ہے کشمیر مجاہدین "تکمیل پاکستان" کی جنگ لڑ رہے ہیں

” یومِ الحاقِ پاکستان”ہر سال قومی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے
19 جولائی 1947ء کو کشمیری مسلمانوں نے ملی اور قومی امنگوں کے مطابق "پاکستان سے الحاق کی قرارداد” منظور کی۔ کشمیر کے شیر دل مسلمان اج بھی اس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ "کشمیر بنے گا پاکستان!”
آج بھی کشمیری اپنے اس وعدے پر قائم ہیں۔ ہندو توا کے ہر ظلم، جبر اور بھارتی تسلط کے باوجود، کشمیری بھائیوں کے دل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں کشمیری مجاہدین غاصب بھارتی فوجیوں کی سینے پر گولیاں کھاتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں "تیری جان میری جان پاکستان ۔پاکستان ۔۔۔ "پاکستان سے رشتہ کیا ؟لا الہ الا اللہ "۔۔ کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جاتا ہے کشمیر مجاہدین "تکمیل پاکستان” کی جنگ لڑ رہے ہیں
انگریز سامراج نے 1846ء میں ریاست جموں کشمیر کو ظالم ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کیا اس وقت سے لے کر قیام پاکستان تک کشمیری مسلمانوں کو ڈوگرا راج نے ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس دوران لاکھوں کشمیریوں کو شہید و زخمی کیا گیا تقسیم ہند کے اعلان سے کشمیریوں کو آزادی کی کرن نظر ائی اور انہیں قوی امید تھی کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان میں شامل ہوگی اور کشمیر پاکستان بنے گا
3- جون 1947ءکے تقسیم ھند کے منصوبے کے مطابق پاکستان اور بھارت دو آزاد ریاستیں معرض وجود میں آئیں اس وقت برصغیر میں 600 سے زائد آزاد ریاستیں موجود تھی تقسیم ھند کے 3 جون کے منصوبے کے مطابق ان ازاد ریاستوں کو پاکستانی بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا مکمل اختیار دیا گیاہندوستان کے تقریباً 40 فی صد رقبے پر کم و بیش 600 کے قریب ایسی ریاستیں تھیں جہاں مہاراجہ، مہارانا، نواب، راجا، جاگیردار، گائیکوار، نظام، جام، والی اور دیگر القابات رکھنے والے حکمران برسرِ اقتدار تھے۔شاہی ریاستوں یا ’پرنسلی اسٹیٹس‘ کہلانے والی ان چھوٹی بڑی ریاستوں میں حیدرآباد جیسی بڑی ریاست بھی شامل تھی جس کی آبادی تقسیم کے وقت ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد تھی اور رقبہ برطانیہ سے بھی زیادہ تھا۔چونکہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہتے تھے اس کے علاوہ بھارت کا کشمیر کے ساتھ زمینی، جغرافیائی، ثقافتی اور مذہبی کسی قسم کا کوئی رشتہ اور تعلق نہ تھا مسلم ضلع گورداسپور کو بھارت میں ضم کرنے سے بھارت کو جموں کشمیر کا زمینی راستہ میسر آیا جو آئندہ دونوں ممالک کے لئے وجہ تنازعہ بنا اور آج تک حل طلب ہے۔ مسئلہ کشمیر 3جون کے تقسیم ہند کے منصوبے کا ادھورا ایجنڈا ہے بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہیں کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا خفیہ منصوبہ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریسی قیادت نے پہلے سے ہی بنا رکھا تھا۔ پٹھانکوٹ کی تحصیل سے بھارت کو زمینی راستہ میسر نہیں آ سکتا تھا اگر گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں بھارت کو نہ دی جاتیں، یہ تمام تحصیلیں8 اگست کو پاکستان کے نقشہ میں ظاہر کی گئیں مگر ریڈ کلف نے ماﺅنٹ بیٹن کے ایما پر یہ تمام علاقے بھارت کو دے دیئے۔ قائداعظم نے ریڈ کلف ایوارڈ کو صریحاً ظالمانہ فیصلہ قرار دیا” حقائق کے مطابق ریڈ کلف یوارڈ میں انتہائی بد دیانتی اور بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا اور بھارت کو کشمیر تک زمینی رسائی دینے کے لیے مسلم اکثرتی ضلع گورداسپور ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ریاست جموں و کشمیر پر مسلط ڈوگرا راجہ نے انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ مل کر کشمیر کا بھارت کے ساتھ غیر فطری اور جعلی الحاق کی سازش رچائی گئی اس کی اڑ میں بھارت نے جموں و کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں 1948ھ کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی عوام نے اپنے غیور قبائلی مجاھدیں کے ساتھ مل کر کشمیر کا ایک بڑا حصہ ازاد کرا لیا بھارت کو کشمیر ہاتھ سے نکل جانے کا خوف لاحق ہوا اور اس نے اقوام متحدہ کا سہارا لیا بر صغیر کی چند ریاستوں کے علاوہ ہندوستان کی زیادہ تر ریاستوں نے اگست 1947ء تک بھارت سے الحاق کر لیا تھا۔ حیدرآباد، کشمیر اور قلات نے آزاد ریاست رہنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن ان میں سے صرف حیدر آباد ہی ستمبر 1948 تک اپنے اس فیصلے پر قائم رہنے میں کام یاب ہو سکی۔بھارت اور پاکستان کے درمیان ریاستی الحاق سے پیدا ہونے والے تنازعات میں سے کشمیر آج تک برقرار ہے جب کہ حکومتِ پاکستان آج بھی بھارت کی حدود میں آنے والی ریاست جونا گڑھ کے اپنے ساتھ الحاق کا دعویٰ کرتی ہے۔
19جولائی 1947ء کو کشمیر کی حقیقی قیادت نے سرینگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائشگاہ پر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ 19 جولائی 1947ء کے تاریخی دن کشمیری عوام کی جانب سے سرینگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ایک تاریخی قرارداد منظور کی گئی جس میں جموں و کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا تھاالحاق کی مذکورہ قرارداد کے مطابق 80 فیصد مسلم آبادی، ریاست سے گزرنے والے اہم دریا، زبان، ثقافت اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ جغرافیائی ثقافتی اور مذہبی انمٹ رشتوں کی وجہ سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں نمبر 47, 51, 80, 96, ،98,122 اور 126 میں لازم کیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق حق خودارادیت کے ذریعے کیا جائے گا۔ جبکہ بھارت نے کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو تسلیم کیا لیکن اج تک کشمیریوں کو ان کا حق خدارادیت نہ دیا جبکہ پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کر رکھا ہوا ہے بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خودارادیت فراہم کرے گا تاہم بھارت بعد میں اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا۔بھارت کی 10 لاکھ غاصب فوج مقبوضہ کشمیر کے عوام پر مسلط ہے معصوم کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مقبوضہ کشمیر کا کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں ہے جہاں کوئی شہید اور زخمی نہ ہو حریت رہنماؤں کو چن چن کر شہید کیا گیا لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت انسانی بنیادی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی کر رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے لیکن تقریبا دو صدیوں سے کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد میں کوئی کمی نہ ائی ہے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اپنی جان و مال کی لازوال قربانیوں سے آزادئ کشمیر کی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں پاکستان بھی ہر سطح پر کشمیریوں کی سفارتی اخلاقی حمایت و امداد جاری رکھے ہوئے ہے کشمیری شہداء کے لہو سے جلد آزادی کی صبح روشن ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔
” ان شاء اللہ ھو العزیز "

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button