سائنس و ٹیکنالوجی

پاکستان میں کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کی ممکنہ پابندی: فلاح یا فریب؟

اس قانون کا بنیادی مقصد بچوں کو آن لائن ہراسانی، ذہنی دباؤ، غلط معلومات اور نامناسب مواد سے محفوظ رکھنا ہے

(وائس آف جرمنی خصوصی رپورٹ) —
پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اب محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ نوجوانوں کے اظہار، تعلیم، آمدنی اور سیکھنے کا میدان بن چکے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں سینیٹ آف پاکستان میں ایک ایسا بل پیش کیا گیا ہے جس نے انٹرنیٹ صارفین، والدین، ڈیجیٹل ماہرین اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سینیٹر سید مسرور احسن اور سینیٹر سرمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے مجوزہ قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد بچوں کو آن لائن ہراسانی، ذہنی دباؤ، غلط معلومات اور نامناسب مواد سے محفوظ رکھنا ہے۔

مجوزہ قانون: مقصد اور خاکہ

پیش کردہ بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ:

  • 16 سال سے کم عمر صارفین کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی ممنوع قرار دی جائے؛

  • سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہر نئے صارف کی عمر کی تصدیق کرنا لازم ہوگا؛

  • اس مقصد کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس اور والدین کی رضامندی پر مبنی نظام استعمال کیا جائے گا؛

  • اگر کوئی ادارہ یا کمپنی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس پر بھاری جرمانے عائد کیے جا سکتے ہیں، حتیٰ کہ ملک میں اس کی سروسز معطل بھی کی جا سکتی ہیں۔

بظاہر یہ قانون بچوں کو ایک بہتر اور محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن ماہرین اس کی عملی حیثیت، اخلاقی پہلو، تکنیکی مشکلات اور اس کے سماجی اثرات پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔


’مسئلہ پابندی سے نہیں، شعور سے حل ہوگا‘

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کے شریک بانی اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ بچوں کو انٹرنیٹ تک رسائی کے نقصانات ضرور ہیں، لیکن مکمل پابندی کسی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہو سکتی۔

"یوٹیوب کڈز، نیٹ فلکس پر پیرنٹل کنٹرول، فیس بک کی فیملی سیٹنگز جیسے ٹولز موجود ہیں جو بچوں کو محفوظ انٹرنیٹ فراہم کر سکتے ہیں۔ سوال پابندی کا نہیں بلکہ ذمہ داری اور شعور کا ہے۔”

ان کا مؤقف ہے کہ بل میں شامل ڈیجیٹل شناخت کی شرط خود ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ پاکستان میں صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کوئی مضبوط قانون موجود نہیں۔ ایسے میں اگر بچوں کی تفصیلات حکومتی اداروں تک پہنچیں تو ان کے غلط استعمال کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔


’پابندی تکنیکی اعتبار سے ناقابلِ عمل ہے‘

معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر عبدالحئی صدیقی کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے آسٹریلیا، ناروے اور برطانیہ میں بھی بچوں کے آن لائن تحفظ کے قوانین موجود ہیں، لیکن عمر کی درست تصدیق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

"نادرا کے ڈیٹا بیس کے ذریعے توثیق کرنا ایک طویل اور پرائیویسی سے متصادم عمل ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ حکومت بچوں کے لیے محفوظ مواد فراہم کرے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موثر فلٹرنگ کے نظام کو فروغ دے۔”

ان کے مطابق ایسے قوانین میں ہمیشہ عملدرآمد سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ "پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکثریتی عوام کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں، وہاں عمر کی تصدیق کیسے ممکن ہوگی؟”


’بل مسئلے کی اصل جڑ کو نہیں چھو رہا‘

ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ صدف خان کے مطابق مجوزہ قانون صرف ایک ’فوری حل‘ کی کوشش ہے جو حقیقی چیلنجز کو نظرانداز کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:

"سوشل میڈیا اب بچوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پر مکمل پابندی نہ صرف غیر عملی بلکہ نقصان دہ ہے۔ ہمیں اصل سوالات پر غور کرنا ہوگا: آن لائن سیفٹی، ڈیجیٹل تربیت، والدین کی شمولیت اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داری۔”

وہ اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ ایسے قوانین کا سب سے منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ریاست کو شہریوں کے ڈیجیٹل رویوں پر مکمل کنٹرول دے دیتے ہیں — جو نہ صرف پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی پر بھی ایک قدغن ہے۔


’سائبر بُلنگ سے تحفظ چاہیے، لاک ڈاؤن نہیں‘

ڈیجیٹل ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ بچوں کو آن لائن ہراسانی، بلیک میلنگ، فحش مواد اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل سے بچانا ضروری ہے، مگر اس کے لیے صرف ’لاک ڈاؤن‘ حل نہیں۔ بلکہ درج ذیل اقدامات مؤثر ہو سکتے ہیں:

  • ڈیجیٹل لٹریسی: بچوں، والدین اور اساتذہ کو آن لائن ماحول کے بارے میں تربیت دی جائے؛

  • پیرنٹل کنٹرول: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حفاظتی ٹولز اور مواد کی درجہ بندی کو لازمی کیا جائے؛

  • سائبر قوانین کا نفاذ: سوشل میڈیا پر بچوں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے؛

  • نجی معلومات کا تحفظ: ڈیجیٹل پرائیویسی کے قوانین کو نافذ کیا جائے تاکہ صارفین کا ڈیٹا محفوظ رہے؛

  • سوشل میڈیا کمپنیوں کی جواب دہی: پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ بچوں کی حفاظت کے لیے مؤثر پالیسیاں مرتب کریں۔


پابندی یا شعور؟ فیصلہ والدین، ریاست اور معاشرے کا

یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال ایک ناقابلِ واپسی حقیقت بن چکا ہے۔ کم عمر بچے نہ صرف اسے استعمال کر رہے ہیں بلکہ وہ تخلیق، تعلیم، اور کاروبار میں اس سے فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں مکمل پابندی نہ صرف ناقابلِ عمل ہے بلکہ یہ ڈیجیٹل دنیا سے بچوں کو الگ کر دینے کے مترادف ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقتی اور سخت گیر حل پیش کرنے کے بجائے ایک جامع، مربوط اور حقیقت پسندانہ پالیسی ترتیب دے — ایسی پالیسی جس میں:

  • والدین کو تربیت دی جائے؛

  • اسکولوں میں ڈیجیٹل لٹریسی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے؛

  • سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بچوں کے لیے مخصوص ماڈز تیار کرنے پر مجبور کیا جائے؛

  • اور پرائیویسی کے تحفظ کے لیے قانون سازی کو ترجیح دی جائے۔

پاکستان میں 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کا بل بظاہر ایک حفاظتی قدم ہے، لیکن اس کا عملی پہلو، تکنیکی پیچیدگیاں، پرائیویسی خدشات اور معاشرتی اثرات بہت سے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسئلے کو اس کی جڑ سے سمجھیں اور ایک ایسا ڈیجیٹل ماحول تخلیق کریں جو شعور، تربیت، احتیاط اور آزادی — سب کو ایک ساتھ لے کر چلے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button