بین الاقوامیاہم خبریں

بھارت میں طلبہ کی خودکشیاں خطرناک حد تک بڑھ گئیں: ماہرین ذہنی صحت کا فوری اقدامات پر زور

"میں ان اعداد و شمار کو صرف نمبر نہیں سمجھتی، یہ ان خاموش اذیتوں کی علامت ہیں جو سماجی اصولوں، والدین کی توقعات، اور نظامِ تعلیم کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔"

نئی دہلی (خصوصی رپورٹ) — بھارت میں تعلیمی دباؤ، ذہنی صحت کی سہولیات کی کمی، اور معاشرتی توقعات کے بوجھ تلے ہر سال ہزاروں طلبہ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کے مطابق، بھارت میں ہر سال تقریباً 13,000 طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں، جو ملک میں خودکشی کرنے والوں کا 7.6 فیصد بنتے ہیں۔

یہ اعداد و شمار 2022 کی رپورٹ پر مبنی ہیں، جبکہ 2023 اور 2024 کے سرکاری اعداد و شمار تاحال جاری نہیں کیے گئے۔ تاہم، ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان ایک قومی انسانی بحران میں بدل سکتا ہے۔


"یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ خاموش اذیتوں کی چیخیں ہیں”

معروف نیورو سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر انجلی ناگپال کا کہنا ہے:

"میں ان اعداد و شمار کو صرف نمبر نہیں سمجھتی، یہ ان خاموش اذیتوں کی علامت ہیں جو سماجی اصولوں، والدین کی توقعات، اور نظامِ تعلیم کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔”

انہوں نے زور دیا کہ اسکولوں میں صرف امتحانات کی تیاری نہیں بلکہ زندگی سے نمٹنے کی مہارتیں بھی سکھائی جانی چاہییں۔ ان کے مطابق، طلبہ کو اظہار، جذبات اور الجھنوں پر بات کرنے کی جگہ دی جانی چاہیے، اور اساتذہ کو سننے اور سمجھنے کی تربیت بھی دینا ضروری ہے۔


حکومتی اعتراف اور کوششیں

بھارتی وزیر مملکت برائے تعلیم سکانت مجمدار نے پیر کے روز پارلیمنٹ میں NCRB کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ:

"تعلیمی اصلاحات اور ذہنی صحت کے نئے اقدامات کے باوجود، شدید تعلیمی دباؤ کمزور طلبہ کو مسلسل متاثر کر رہا ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے طلبہ، اساتذہ اور والدین کے لیے نفسیاتی معاونت کے پروگرام متعارف کرائے ہیں اور کثیر الجہتی اقدامات پر کام جاری ہے۔


سماجی دباؤ، زہریلی مسابقت، اور بے اعتمادی کا ماحول

سوسائیڈ پریوینشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسیٰ نے اس مسئلے کو ایک "خاموش وبا” قرار دیا، جو ہزاروں نوجوانوں کو مایوسی، تنہائی اور خودکشی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

"زہریلی مسابقت، سخت گریڈنگ سسٹم، اور ذہنی صحت کے ناقص ڈھانچے اس بحران کے بنیادی عوامل ہیں۔ ہمیں کیمپس میں زندگی کی مہارتیں، جذباتی ذہانت، اور دباؤ سے نمٹنے کے تربیتی پروگرام فوری متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔”

انہوں نے تعلیمی اداروں میں "گیٹ کیپر” تربیت کو بھی اہم قرار دیا، جس کا مقصد اساتذہ اور کونسلرز کو خودکشی کے خطرات کی شناخت اور بروقت مداخلت کی تربیت دینا ہے۔


تحقیقاتی سروے: 12 فیصد طلبہ خودکشی کے خیالات رکھتے ہیں

یونیورسٹی آف میلبورن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (نمہانس) اور دیگر اداروں کی 2019 کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق:

  • بھارت کی 9 ریاستوں کی 30 یونیورسٹیوں کے 8,500 سے زائد طلبہ میں سے

  • 12 فیصد نے گزشتہ سال خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا

  • جبکہ 6.7 فیصد نے کبھی نہ کبھی خودکشی کی کوشش کی

تحقیق میں تعلیمی اداروں میں فوری ذہنی صحت کے پروگرامز، کونسلنگ، اور معاون نظام کے قیام پر زور دیا گیا۔


سپریم کورٹ کی مداخلت اور ٹاسک فورس کی تشکیل

خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے، بھارتی سپریم کورٹ نے مارچ 2024 میں اسے "خودکشی کی وبا” قرار دیتے ہوئے ایک 10 رکنی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، جو پورے ملک میں تعلیمی اداروں، ماہرین، اور پالیسی سازوں سے مشاورت کر کے ایک جامع پالیسی تیار کر رہی ہے۔


طلبہ کو صرف ایک دن کے امتحان پر نہ پرکھیں: ماہرین کی اپیل

کریئرز360 کے بانی مہیشور پیری نے کہا:

"بدقسمتی سے طلبہ کو صرف ایک دن کے امتحان کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، جس سے وہ خود کو ناکام سمجھتے ہیں اور جان لے لیتے ہیں۔ ہمیں انہیں محفوظ، معاون اور حوصلہ افزا تعلیمی ماحول دینا ہو گا۔”


ذہنی صحت: ایک بنیادی حق

دہلی کے ممتاز ماہرِ نفسیات آچل بھگت، جنہیں شعبہ ذہنی صحت میں 30 سال کا تجربہ ہے، نے کہا:

"ہماری کامیابی کی تعریف محدود، نظام سخت گیر، اور نوجوانوں سے مکالمہ غائب ہے۔ نتیجتاً نوجوان خود کو غیر محفوظ، غیر متعلق اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔”

ان کے مطابق، اس بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ:

  • نوجوانوں کو مستقبل کے فیصلوں میں شریک کیا جائے

  • قابلِ رسائی رول ماڈلز سامنے لائے جائیں

  • کامیابی کی وسیع تر تعریف متعارف کرائی جائے


وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں

بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک سماجی المیہ ہے، جو والدین، اساتذہ، پالیسی سازوں اور سماج سب کے لیے ایک وارننگ ہے۔

اگر تعلیمی اداروں میں نفسیاتی معاونت، جذباتی مکالمہ، اور ذہنی صحت کو مرکزی حیثیت نہ دی گئی، تو آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button