انٹرٹینمینٹ

ڈنمارک کے چڑیا گھر کی اپیل: "اپنے پالتو جانور عطیہ کریں تاکہ شکاری جانوروں کو خوراک فراہم کی جا سکے”

جانوروں کو ماہر عملہ ایک مخصوص، انسانی ہمدردی پر مبنی طریقے سے ’آسان موت‘ دیتا ہے، جس کے بعد انہیں شیر، چیتے، یورپی جنگلی بلیاں اور دیگر شکاری جانوروں کو کھلایا جاتا ہے

البورگ، ڈنمارک – ڈنمارک کے جنوبی علاقے میں واقع معروف البورگ چڑیا گھر نے حالیہ دنوں میں ایک ایسی اپیل جاری کی ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کر لی ہے۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے اضافی یا ناپسندیدہ پالتو جانور جیسے کہ خرگوش، مرغیاں، چھوٹے سؤر (پگ)، اور چھوٹے گھوڑے چڑیا گھر کو عطیہ کریں – مگر یہ جانور تفریح یا نمائش کے لیے نہیں بلکہ شکاری جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیے جائیں گے۔

قدرتی خوراک کا نظام بحال رکھنے کی کوشش

چڑیا گھر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’مرغیاں، خرگوش اور چھوٹے سؤر ہمارے بڑے اور شکاری جانوروں کی خوراک کا اہم حصہ ہیں۔ ہم ان جانوروں کی فلاح، قدرتی رویے اور غذائیت کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں قدرتی خوراک فراہم کرتے ہیں۔‘‘

اس مقصد کے لیے عطیہ کیے گئے جانوروں کو ماہر عملہ ایک مخصوص، انسانی ہمدردی پر مبنی طریقے سے ’آسان موت‘ دیتا ہے، جس کے بعد انہیں شیر، چیتے، یورپی جنگلی بلیاں اور دیگر شکاری جانوروں کو کھلایا جاتا ہے۔

چڑیا گھر نے اس اپیل کے ساتھ ایک تصویری پوسٹ بھی جاری کی جس میں ایک بڑے شکاری جانور کے کھلے ہوئے منہ اور نوکیلے دانتوں کو نمایاں کیا گیا۔ اس پوسٹ نے صارفین کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کیا اور انٹرنیٹ پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

عوامی ردِعمل: ظلم یا فطری نظام؟

چڑیا گھر کی اس اپیل پر سوشل میڈیا صارفین کی رائے منقسم ہے۔ بعض افراد نے اس اقدام کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، پالتو جانوروں کو صرف اس وجہ سے مارنا کہ وہ اضافی یا ناپسندیدہ ہیں، اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پالتو جانوروں کو ایک گھر، تحفظ اور محبت دی جانی چاہیے، نہ کہ انہیں مار کر خوراک بنا دیا جائے۔

دوسری جانب، کچھ صارفین نے چڑیا گھر کی اس حکمتِ عملی کو سراہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ ایک مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے فطری خوراک کا نظام بحال رکھا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چڑیا گھروں میں رکھے گئے شکاری جانوروں کو وہی خوراک دی جانی چاہیے جو وہ قدرتی ماحول میں حاصل کرتے ہیں۔

’پہلی بار نہیں، یہ روایت پرانی ہے‘

چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر پیا نیلسن نے اس بارے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا، ’’یہ کوئی نئی اپیل نہیں ہے۔ ہم پہلے بھی شہریوں سے اس قسم کے عطیات حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد جانوروں کی فلاح، فطری خوراک کی فراہمی اور نظامِ قدرت کے مطابق ماحول مہیا کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارا ماہر عملہ اس پورے عمل کو ذمہ داری اور احترام سے مکمل کرتا ہے، تاکہ کسی قسم کی اذیت یا غیر اخلاقی عمل نہ ہو۔‘‘

قانونی اور اخلاقی پہلو

یہ بحث محض اخلاقی نہیں بلکہ قانونی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یورپی ممالک میں جانوروں کی فلاح اور ان کے حقوق کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر ملکی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔

نتیجہ: ایک تلخ حقیقت یا قدرتی ضرورت؟

البورگ چڑیا گھر کی یہ اپیل ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے: کیا انسانی جذبات کے برعکس جانوروں کے فطری رویے اور خوراک کی ضروریات کو ترجیح دی جانی چاہیے؟ جہاں کچھ لوگ اس پر سخت تنقید کر رہے ہیں، وہیں کچھ لوگ اسے ایک حقیقت پسندانہ قدم قرار دے رہے ہیں۔

اس واقعے نے نہ صرف جانوروں کی فلاح پر ایک نئی بحث کا آغاز کیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ چڑیا گھروں کے اندرونی نظام، خوراک کی فراہمی، اور شکاری جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے معاشرتی شعور کس قدر ضروری ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا البورگ چڑیا گھر کی یہ پالیسی مزید عوامی حمایت حاصل کرتی ہے یا مستقبل میں اس پر مزید پابندیاں لگتی ہیں۔ تاہم ایک بات طے ہے: جانوروں کی دنیا میں بھی زندہ رہنے کے لیے ایک قیمت چکانی پڑتی ہے – چاہے وہ انسانوں کے پالتو جانور ہی کیوں نہ ہوں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button