
امریکا اپنے مفادات کو دیکھتا ہے……ناصف اعوان
بہر حال امریکا کے عزائم کچھ اور ہو سکتے ہیں وہ پاکستان کو اب تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے والے منصوبوں سے دُور رکھتا آیا ہے
عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹیکسوں کی یلغار اور مہنگائی کے سائیکلون نے اعصابی مریض بنا دیا ہے اگرچہ حکومت انہیں اچھے دنوں کی نوید سنا رہی پے جس میں ایک یہ ہے کہ امریکا ملک کے اندر موجود تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے آرہا ہے جس سے خوشحالی آئے گی لہذا وہ پریشان نہ ہوں ان کے دن پھرنے والے ہیں ؟ یادش بخیر ماضی کی حکومتوں نے بھی اس طرح کے سہانے خواب دکھائے اور خوشخبریاں سنائیں کہ کبھی تیل کی کبھی سونے چاندی کی کبھی تانبے کی اور کبھی گیس کے ذخائر کی مگر اب تک وہ ذخائر ملک کی تقدیر نہیں بدل سکے ۔غربت بھی موجود ‘ ذرائع روزگار بھی ناکافی لہذا لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے اب اندھا دھند دائیں بائیں سے قرضے لے کر غیر پیداواری منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہماری نظروں سے ایسا کوئی منصوبہ نہیں گزرا کہ جو ہماری بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہو ۔نوجوانوں کو روزگار فراہم کرکے مایوسی سے باہر نکالتا ہو ۔ ہاں مگر پنجاب حکومت نے انہیں باروزگار بنانے کے لئے چنگ چیاں اور رکشائیں دینے کی پیشکش کی ہے مگر مسافر کہاں سے آئیں گے اور کیا ڈگری ہولڈرز نوجوانوں میں یہ احساس نہیں پیدا ہو گا کہ ان کی ڈگریوں کی تذلیل کی جا رہی ہے یہ بھی امر قابل غور ہونا چاہیے کہ پہلے سے چلنے والی رکشاؤں اور چنگ چیوں کے لئے بھی مسافر کم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی چل پڑی ہے لہذا ضرورت فیکٹریوں اور کارخانوں کی ہے ۔گھریلو صنعتوں کی ہے۔چین سے فی الحال ہمارے تعلقات بہتر ہیں اس سے جہاں جنگی سازو سامان لیا جاتا ہے تو وہاں اس سے جدید پیداواری مشینری کیوں نہیں لی جا رہی اگر لی جارہی ہے تو اس کی تشہیر ہونی چاہیے سیوریج سڑکوں اور پلوں کے اشتہارات تو دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر بنیادی ترقی کے حوالے سے کوئی خیر خبر نہیں ؟
بہر حال امریکا کے عزائم کچھ اور ہو سکتے ہیں وہ پاکستان کو اب تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے والے منصوبوں سے دُور رکھتا آیا ہے ۔ایران سے تیل گیس کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر ہمیں سستا تیل اور گیس مل گئےہوتے تو ملک بہت آگے نکل گیا ہوتا مگر اس نے ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلا اب جب ٹرمپ صدر امریکا کہتے ہیں کہ جو پاکستان سے تیل نکلے گا اسے بھارت کو بھی برآمد کیا جائے گامگر اس کا فائدہ ہمیں بھی ہوگا کیا؟ کہا جا رہا ہے کہ اب ہمیں امریکی تیل خریدنا ہوگا جس کی قیمت نسبتاً زیادہ ہوگی خیرصدر ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا تیل سے بجلی کی طرف آرہی ہے ۔ ہماری حکومت بھی اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے ۔پنجاب حکومت نے تو ای موٹر سائیکلوں کو باقاعدہ متعارف کروانا شروع کر دیا ہے جن کے پاس پٹرول والی بائیکز ہیں ان کو بجلی پرمنتقل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور ہر ای موٹر سائیکل مالک کو وہ ایک لاکھ روپے بھی ادا کرے گی ۔کاریں بھی الیکٹرک متعارف کروائی جارہی ہیں لہذا تیل والی بات بڑی عجیب لگتی ہے اس کا مقصد کچھ اور ہے ؟ اس بارے اہل فکر ودانش کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اصل میں معدنیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اسی لئے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین اس ہونے والی سیاسی تبدیلی سےاپنی آنکھیں بند رکھےگا نہیں ہر گز نہیں ۔لہذا صورت حال بڑی پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے مگر ہماری حکومت امریکا کو ترجیح دے رہی ہے اس کی وجہ خان ہے لہذا وہ چاہتی ہے کہ صدر ٹرمپ انہیں غیر اہم قرار دے دیں اور وہ دے بھی چکے ہیں شاید‘ ان کے منتخب ہونے کے وقت جو خان کے حق میں خود بھی بیان دیا اور کانگرسیوں سے بھی الٹے سیدھے بیانات دلوائےگئے اور دلوائے جا رہے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ پر مجبور کیا جائے اور وہ جی جی کرتی ہوئی نظر بھی آرہی ہے اس پر وہ بہت خوش ہے اسی لئے ہی شاید پی ٹی آئی کی شامت آئی ہوئی ہے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی پانچ اگست کو احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ اس روز شاید ان کے بیٹے بھی موجود ہوں گے ان سے متعلق کہا جارہا ہے کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے جبکہ ایسا نہیں‘ وہ اپنے والد سے ملاقات کریں گے البتہ ان کی خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد رہا ہوں مگر ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ”آزاد“ ہو سکیں گے کیونکہ اب سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے حکومت پر کسی بھی طرف سے دباؤ نہیں کہ اس نے دباؤ ڈالنے والی قوتوں کو رام کر لیا ہے اب وہ محض پی ٹی آئی کے کارکنان کو طفل تسلی ہی دیں گی عملاً کچھ نہیں کریں گی ۔بس یہی سلسلہ ہے جو ستر پچھتر برس سے چلا آرہا ہے ۔حکمران اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جھکتے رہے ہیں اس کے بدلے میں وہ ان کے عرصہ اقتدار کا تعین کرتا رہا ہے جو اس کے ساتھ ”نیک نیتی“ کے ساتھ محو سفر ہوا وہ عیش میں رہا جس نے اسے نظر انداز کیا وہ رسوا ہوا پھر یہ بھی ہوا کہ وہ پھانسی گھاٹ پر پہنچ گیا لہذا تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈر کو اس بدلتے ہوئے سیاسی منظر کو نیک شگون نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ چین ہم سے ناراض بھی ہو سکتا ہے ۔جبکہ اس نے ہمارے دفاع کو مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی ہے اور بھارتی جارحیت کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے لہذا سوچ سمجھ کر امریکا سے پیار کی پینگ چڑھائی جائے ۔ صدر ٹرمپ بھی اپنے سابق صدور کی طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ۔دیکھ لیجئے انہوں نے جنگوں کی مخالفت کی مگر جنگیں نہیں رُکیں بلکہ وہ خود جنگ میں کود پڑے ہیں لہذا اہل سیاست و اقتدار کسی
مغالطے میں نہ رہیں ۔امریکا کبھی کسی کا سجن نہیں ہوا اس نے کسی بھی نو آبادی ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیا اسے ہمیشہ غریب اور پسماندہ رکھا تاکہ اس کا امدادوں پر انحصار رہے اور اس کے زیر اثر رہے ۔وطن عزیز کو بھی اس نے ترقی پزیر ہی رکھا جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی چین اور روس کا اس میں بڑا کردار ہے اس لئے اہل اقتدار عمران خان کی مخالفت میں جزباتی نہ ہوں .یہاں ہم پی ٹی آئی کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ سیاست کو سیاسی ماحول ہی میں رکھنے کی کوشش کرے کہ ملک واقعتاً نازک دور سے گزر رہا ہے !