
یوم استحصال کشمیر اور بھارت کا جبر و استبداد….۔پیر مشتاق رضوی
پاکستانی ماہ اگست میں ہر سال جشن آزادی مناتے ہیں 14 اگست 1947ء کو بھی ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں نے ازادی کا جشن منایا تھا ریاست میں مسلمانوں کے اکثریتی فیصلے کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے
تاریخ کا بہت بڑا انسانی المیہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان گذشتہ 78 سالوں سے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حق استصواب رائے سے محروم چلے آرہے ہیں کشمیری ہر سال 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر اس لیے مناتے ہیں کیونکہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے غیر قانونی طور پر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی تھی۔اور مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر دیا تھا اس اقدام کے بعد بھارت نے وادی کو مکمل فوجی چھاؤنی میں بدل دیا، کشمیری قیادت کو نظربند کیا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شروع ہوئیں۔ اس دن کو کشمیری اپنا حق خودارادیت، انسانی بنیادی حقوق اور آزادی سلب ہونے کے خلاف احتجاج کے طور پر مناتے ہیں اور عالمی برادری کی توجہ اپنی جدوجہد کی جانب مبذول کرواتے ہیں۔
پاکستانی ماہ اگست میں ہر سال جشن آزادی مناتے ہیں 14 اگست 1947ء کو بھی ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں نے ازادی کا جشن منایا تھا ریاست میں مسلمانوں کے اکثریتی فیصلے کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے سرحدوں کے تعین میں ریڈ کلف ایوارڈ نے انتہائی بددیانتی کی انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے ضلع گورداس پور کو بھارت میں شامل کر کے کشمیر پر قبضے کی مذموم سازش بنائی گئی بھارت نے جموں و کشمیر پر جبرا” قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں کشمیر میں اتاریں جس پر بانی پاکستان قائد اعظم نے اس وقت پاکستان کے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ بھی کشمیر میں پاکستانی فوجی داخل کر دیں لیکن جنرل گریسی نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ایماء پر پاکستانی فوج کشمیر میں داخل نہ کی اور قائد اعظم کے حکم کی خلاف ورزی کی بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں 27 اکتوبر 1947ء کو داخل کیں، جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے جعلی الحاق کی آڑ میں بھارتی فوجی مدد مانگی۔ 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا تقریباً دو تہائی حصہ (وادی کشمیر، جموں، لداخ) بھارت کے قبضہ میں رہا، جبکہ تقریباً ایک تہائی حصہ (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) پاکستان کے زیر انتظام آیا۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی (سیز فائر) ہوئی اور ایک لائن آف کنٹرول قائم ہوئی۔ جنگ میں کوئی واضح فاتح نہیں نکلا—بعض تجزیہ نگار اسے ’اسٹیل میٹ‘ کہتے ہیں، مگر بھارت نے متنازعہ ریاست کشمیر پر جبرا” قبضہ کرلیا اس جنگ میں بھارت نے کشمیر کو اپنے ناجائز قبضہ سے نکلتا دیکھنے پر اقوام متحدہ کا سہارا لیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق میں متعدد قراردادیں منظور کیں جس پر بھرت نے اج تک کوئی عمل درامد نہ کرایا اور کشمیریوں کو ابتک خود ارادیت سے محروم رکھا ہوا ہے اقوام متحدہ کی قراردادیں بنیادی طور پر یہ اُصول طے کرتی ہیں کہ جمّوں و کشمیر کا مستقبل کشمیری عوام کی مرضی سے، آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری (استصواب رائے) کے ذریعے طے کیا جائے گا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:1948 اور 1949 کی قراردادیں مسئلہ کشمیر حل کرانے کے سلسلے ایک اہم پیش رفت تھی قراردادوں میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان تنازع حل کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائیں، تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ قراردادوں میں کشمیریوں کے خود ارادیت کا حق باقاعدہ تسلیم کیا گیا کہ
اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بنیادی اصول یہی ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے ہونا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے۔ کسی مقامی اسمبلی یا الیکشن کے ذریعے یا یکطرفہ فیصلے کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا جاتا۔ یو این ان او کمیشن نازعہ کی نگرانی کرنے اور فریقین میں ثالثی کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ دونوں ممالک کو تلقین کی گئی کہ شفاف اور منصفانہ رائے شماری کو یقینی بنائیں گے اقوام متحدہ کی فوجی مبصر گروپ نے سیزفائر کی نگرانی، مقامی انتظامیہ میں عدل اور انسانی حقوق کی ضمانت کے نظام وضع کیے۔بھارت نے مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ان قردادوں پر آج تک عملدرآمد نہ کرایا – ان قراردادوں پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا، اور یہ تنازعہ اب بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
آرٹیکل 370 بھارتی آئین کی وہ خصوصی شق تھی جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو الگ اور خصوصی حیثیت حاصل تھی جس کے مطابق
جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے اور اہم معاملات میں اپنی مقامی حکومت چلانے کا اختیار حاصل تھا۔ہیومن رائٹس اور مقامی قوانین کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی آئین پوری طرح لاگو نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ تر بدنام زمانہ بھارتی قوانین، نام نہاد جموں کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر نافذ کیے گئے جبکہ ریاستی شہریوں کو خصوصی حقوق حاصل تھے، دوسرے بھارتی شہری جائیداد نہیں خرید سکتے تھے۔
5 اگست 2019 بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لیا اور کشمیرکی ائینی خصوصیت کو بھی ختم کر دیا اس سے قبل بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی ائین کے آرٹیکل 370 اس کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کی بنیاد پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا راستہ مل گیاتھا5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے صدارتی حکم کے ذریعے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔اس کے بعد جموں و کشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کر دیا گیا، اب بھارتی قوانین مکمل طور پر لاگو ہو گئے۔یہ ایک متنازعہ اقدام تھا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف تھا اس فیصلے پر کشمیری عوام، پاکستان اور بہت سے عالمی ماہرین نے تشویش خدشات کا اظہار کیا۔ اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت نے اپنے مذموم ترین ایجنڈے کے تحت حریت پسند کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر چن چن کر شہید کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور دنیا کو گمراہ کر کے مقبوضہ کشمیر میں اپنی قتل و غارت کو چھپانے کے لیے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے اور اس سلسلے اس نے فالس فلیگ اپریشنز کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہےجن کا مقصد پاکستان کو دہشتگردی یا عدم استحکام کا ذمہ دار ثابت کرنا اور دنیا کی توجہ کشمیری عوام کی جدوجہد سے ہٹانا ہے بھارت نے فالس فلیگ اپریشن کی آڑ میں 2000ء میں صدر بل کلنٹن کے دورے سے پہلے سکھوں کا قتل (چٹی سنگھ پورہ)، جسے بھارتی فوج کا فالس فلیگ آپریشن قرار دیا گیا2001ء بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ، جس کا الزام فوری پاکستان پر لگا دیا گیا۔2008ءممبئی حملے، 2016ءمیں اُڑی بیس حملہ، اور 2019 ءپلوامہ حملہ ان سب فالس آپریسنز میں بھارتی ریاست نے فوراً پاکستان کو قصوروار قرار دیا، جب کہ بہت سے عالمی اور مقامی مبصرین نے ان پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ 25-2023ء میں بھی پوونچھ، پاہلگام اور نیلم کے حملے، جنہیں انتخابات یا عالمی سفارتی ایونٹس سے پہلے انجام دیا گیا، بھی اسی زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں فالس فلیگ اپریشن کے بعد بھارتی میڈیا فوراً "پاکستان دہشت گردی” کا بیانیہ بناتا ہے۔ معتبر بین الاقوامی ذرائع اور تجزیہ نگار ان جھوٹے آپریشنز کی ٹائمنگ اور واقعات پر سوال اٹھاتے
میں بھارت کا سب سے نمایاں فالس فلیگ آپریشن پہلگام حملہ* ہے پہلگام (کشمیر) میں ایک بڑا فالس فلیگ آپریشن میں بھارت نے 26 بھارتی سیاح ہلاک کرائے۔ بھارت نے ، بغیر کسی غیر جانبدار شواہد کےفوری طور پر الزام پاکستان پر لگا دیا – اس واقعے کے وقت نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کے دورے پر تھے، جس پر بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس حملے کے وقت اور مقاصد پر شکوک ظاہر کیے- پاکستان نے اس حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیا اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا- بھارت نے اس مبینہ حملے کو جواز بنا کر 7 مئی کو آپریشن سندور کے نام سے پاکستان میں فضائی و میزائل حملے کیے، جن میں شہری املاک، عبادت گاہیں اور بے گناہ افراد نشانہ بنے اور بین القومی سرحدوں کی خلاف ورزی کی – اس کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا، پاکستان سے سفارتی عملہ کم کیا اور زمینی سرحدیں بند کر دیں۔ پاکستان نے بھی جوابی اقدامات اٹھائے- عالمی و پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق، پہلگام واقعہ بھارت کا تیار کردہ فالس فلیگ آپریشن تھا جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا، اندرونِ ملک ہندو ووٹر کو متحد کرنا اور کشمیر میں بھارتی مظالم سے توجہ ہٹانا ھے ابھی تک کشمیریوں کی جدوجہد آزادی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی۔ آزادی کی تحریک جاری ہے اور کشمیری عوام اب بھی بنیادی حقوق اور حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ – بھارت نے اب بھی جموں و کشمیر پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے، اور 5 اگست 2019ء کے بعد انسانی حقوق کی پابندیاں اور مزید سخت ہو گئی ہیں-گزشتہ چھ سالوں سے مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل بنی ہوئی ہے اسرائیل کی طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور قتل وغارت کا بازار گرم کر رکھا ہے گزشتہ 78 سالوں میں بھارت نے 10 لاکھ سے زیاد کشمیریوں کو شہید و زخمی کیا مقبوضہ کشمیر کی مکمل آزادی یا اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری اب تک نہیں ہوئی۔مسئلہ کشمیر 3+جون 47ھ تقسیم ہند کی منصوبے کا ادھورا ایجنڈا ہے کشمیری حریت پسند تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں- کشمیر کا مسئلہ عالمی توجہ حاصل کر چکا ہے اور کشمیری قوم کی قربانیوں کو سراہا جا رہا ہے، مگر منزل باقی ہے۔۔۔۔۔پاکستان ہر سطح پر اپنے کشمیریوں بھائیوں کی سفارتی اخلاقی مدد جاری رکھے گا کیونکہ "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے”!!