
اضافی محصولات پر کشیدگی: بھارت نے امریکہ سے دفاعی سامان کی خریداری موخر کر دی
امریکہ کے کسی بھی تجارتی شراکت دار کے لیے اب تک کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک قرار دی جا رہی ہے۔
نئی دہلی / واشنگٹن — بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازعات نے اب دفاعی تعلقات کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز نے باوثوق ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے امریکہ سے مجوزہ دفاعی سازوسامان کی خریداری کے متعدد اہم منصوبے موخر کر دیے ہیں، جن میں جےولن اینٹی ٹینک میزائلز اور اسٹرائیکر جنگی گاڑیاں شامل ہیں۔ اس پیش رفت کے ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا امریکہ کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا ٹیکس حملہ، تعلقات پر اثرات
تنازع کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ روسی تیل خرید کر یوکرین پر حملے کی بالواسطہ مالی معاونت کر رہا ہے۔ اس الزام کے بعد 6 اگست کو صدر ٹرمپ نے بھارت کی برآمدات پر 25 فیصد اضافی درآمدی ڈیوٹی عائد کر دی۔ اس فیصلے کے بعد بھارتی مصنوعات پر مجموعی امریکی ڈیوٹی 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے — جو امریکہ کے کسی بھی تجارتی شراکت دار کے لیے اب تک کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک قرار دی جا رہی ہے۔
دفاعی معاہدے تعطل کا شکار
روئٹرز کے مطابق، مذکورہ ڈیوٹی تنازع نے دو طرفہ دفاعی تعاون کے کئی منصوبوں کو تعطل کا شکار کر دیا ہے۔ ان میں امریکہ کی معروف اسلحہ ساز کمپنیوں — ریتھیون، لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ اور جنرل ڈائنامکس — کی طرف سے بھارت کو ہتھیاروں کی فروخت کے اہم معاہدے شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، بھارت نے فی الوقت جےولن اینٹی ٹینک میزائلوں اور جنرل ڈائنامکس کی اسٹرائیکر جنگی گاڑیوں کی خریداری پر بات چیت روک دی ہے۔ یہ وہی ہتھیار ہیں جن کی خریداری اور ممکنہ مشترکہ پیداوار کا اعلان فروری 2025 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
3.6 ارب ڈالر کے طیارہ معاہدے پر بھی سناٹا
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ اپنے مجوزہ امریکی دورے کے دوران بھارتی بحریہ کے لیے چھ بوئنگ P8I جاسوس طیاروں اور متعلقہ معاون نظاموں کی خریداری کا اعلان کرنے والے تھے۔ اس معاہدے کی مالیت 3.6 ارب ڈالر تھی اور بات چیت آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔
تاہم، اضافی محصولات کے باعث یہ معاہدہ بھی غیریقینی کا شکار ہو چکا ہے۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن اور جنرل ڈائنامکس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے سوالات دونوں حکومتوں کو بھیج دیے ہیں، جبکہ ریتھیون نے مکمل طور پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔
بھارتی وزارت دفاع کی تردید
اس تمام تر صورت حال کے دوران، بھارتی وزارت دفاع نے میڈیا رپورٹس کو "جھوٹ اور من گھڑت” قرار دیتے ہوئے وضاحت جاری کی ہے کہ دفاعی خریداری کا عمل طے شدہ طریقہ کار کے مطابق جاری ہے۔ وزارت کے مطابق، خریداری کا فیصلہ کسی وقتی سیاسی یا تجارتی صورتحال سے متاثر نہیں ہوتا اور قومی مفاد کو مقدم رکھا جاتا ہے۔
تجزیہ: کیا امریکہ-بھارت دفاعی تعلقات میں رخنہ پڑے گا؟
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری گزشتہ دو دہائیوں میں مضبوط ہوئی ہے، لیکن موجودہ تجارتی کشیدگی تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ بھارت کے لیے امریکی دفاعی ٹیکنالوجی ایک اہم سرمایہ کاری رہی ہے، لیکن اگر محصولات کا تنازع طول پکڑتا ہے تو بھارت دیگر متبادل ذرائع کی طرف رخ کر سکتا ہے، بشمول یورپی یونین، اسرائیل یا گھریلو دفاعی صنعت۔
ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق، "فی الوقت کوئی باضابطہ تحریری ہدایت نہیں دی گئی، لیکن ظاہر ہے کہ جب تک تجارتی تعلقات کی سمت واضح نہیں ہوتی، دفاعی معاہدے تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔”
ماضی کی مثال: محصولات اور سفارتکاری
یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے بھارت پر تجارتی دباؤ ڈالا ہو۔ 2019 میں بھی ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کو جی ایس پی (Generalized System of Preferences) سے خارج کر دیا تھا، جس کے باعث بھارت کی 5.6 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ تاہم، وقت کے ساتھ سفارتی بات چیت کے ذریعے معاملات معمول پر آئے۔
آگے کا راستہ؟
اگرچہ دونوں ممالک دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے اہم شراکت دار ہیں، لیکن موجودہ تعطل ظاہر کرتا ہے کہ تجارتی معاملات مستقبل کی دفاعی پیش رفت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں پر زور ہے کہ وہ سفارتی سطح پر فوری بات چیت کر کے معاملات کو سلجھائیں تاکہ نہ صرف معاشی تعلقات متاثر نہ ہوں، بلکہ خطے میں دفاعی توازن بھی قائم رہ سکے۔



