اہم خبریںصحت

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک قومی بحران: وزیراعظم شہباز شریف، فوری قومی حکمتِ عملی کی تشکیل کی ہدایت

"یہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی، ماحولیاتی اور سلامتی کے تناظر میں بھی ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔"

سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آ ف جرمنی کے ساتھ

وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں آبادی کے تیز رفتار اضافے کو ایک "خاموش مگر شدید بحران” قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے فوری اور جامع قومی حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم نے جمعرات کے روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے ہمہ گیر اثرات پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔

آبادی کی شرح تشویشناک، وسائل پر شدید دباؤ

وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 2.55 فیصد کی شرح سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا بھر میں بھی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت ملک کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2050 تک یہ آبادی 40 کروڑ سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف معاشی ترقی متاثر ہوگی بلکہ خوراک، پانی، صحت، تعلیم، روزگار اور رہائش جیسے اہم شعبے شدید دباؤ میں آ جائیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا:
"یہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی، ماحولیاتی اور سلامتی کے تناظر میں بھی ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔”

قومی حکمتِ عملی اور کمیٹی کی تشکیل کی ہدایت

شہباز شریف نے اجلاس میں ایک اعلیٰ سطحی قومی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی جو آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ایک قابلِ عمل اور دیرپا پالیسی اور حکمت عملی تیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس حکمت عملی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان قریبی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت سے ایک متفقہ اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔

نوجوان آبادی: ایک چیلنج بھی، موقع بھی

وزیراعظم نے ملک کی نوجوان آبادی کو "قومی اثاثہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو معیشت کا فعال حصہ بنانے کے لیے روزگار، تعلیم اور ہنر سازی کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔

"ہماری نوجوان نسل ملک کا مستقبل ہے، اگر انہیں درست مواقع فراہم کیے جائیں تو یہی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی قوتِ محرکہ بن سکتی ہے۔”

خواتین کی معاشی شمولیت پر زور

اجلاس میں خواتین کی معاشی شرکت پر بھی زور دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی افرادی قوت کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور ان کے لیے محفوظ اور مساوی معاشی مواقع پیدا کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی کہ خواتین کے لیے ملازمتوں، تعلیم، اور کاروباری سہولتوں میں توسیع کی جائے تاکہ وہ قومی معیشت میں فعال کردار ادا کر سکیں۔

خاندانی منصوبہ بندی پر نئی مہم کی ضرورت

اجلاس میں ماہرین نے موجودہ صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ ماضی میں چلائی جانے والی "بچے دو ہی اچھے” جیسی خاندانی منصوبہ بندی کی قومی مہمات کے مثبت اثرات دیکھے گئے تھے، مگر سماجی مزاحمت، مذہبی مخالفت، اور سیاسی ہچکچاہٹ کے باعث ان مہمات کو مؤثر انداز میں جاری نہیں رکھا جا سکا۔

ماہرین نے تجویز دی کہ ایک نئی، ثقافتی اور مذہبی حساسیت پر مبنی خاندانی منصوبہ بندی مہم کا آغاز کیا جائے، جس میں علمائے کرام، میڈیا، سول سوسائٹی اور مقامی حکومتوں کو شامل کیا جائے۔

ماہرین کی تنبیہ: خاموش بحران، فوری اقدام کی ضرورت

سماجی ماہرین نے خبردار کیا کہ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی ایک "خاموش بحران” ہے، جو اگر فوری طور پر نہ روکا گیا تو شہری انفراسٹرکچر، ماحولیات، اور قومی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ان کے مطابق کراچی، لاہور، پشاور، اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں بے ہنگم شہری توسیع، گنجان آبادیاں، اور سہولیات کی قلت مستقبل میں بڑے پیمانے پر مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔

پائیدار ترقی کے اہداف سے دوری

پاکستان اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے تحت آبادی، تعلیم، صحت اور صنفی مساوات جیسے شعبوں میں بہتری کے لیے پرعزم ہے، مگر آبادی کے غیر معمولی دباؤ کے تحت ان اہداف کا حصول مزید مشکل ہو رہا ہے۔


نتیجہ: ایک نئی سمت کی ضرورت

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آبادی کے مسئلے کو قومی سطح پر اجاگر کرنا ایک خوش آئند قدم ہے، تاہم ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زبانی اعلانات سے زیادہ، عملی اقدامات، پالیسیوں کا نفاذ، اور سماجی رویوں میں تبدیلی اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے ضروری ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اجلاس پاکستان میں آبادی سے جڑے بحران کے حل کی طرف ایک عملی پیش رفت ثابت ہوتا ہے یا ماضی کی طرح محض ایک اور کاغذی اعلان بن کر رہ جاتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button