
اسلام آباد / برلن:
پاکستان میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کی پالیسی کے تحت تازہ ترین کریک ڈاؤن نے نہ صرف غیر قانونی مقیم افراد کو متاثر کیا ہے بلکہ ان افغان شہریوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جو جرمنی کے خصوصی داخلہ پروگرامز کے تحت یورپ منتقلی کے منتظر تھے۔ ان افراد میں وہ سابقہ مترجمین، صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، خواتین اور بچے شامل ہیں جنہیں طالبان کے قبضے کے بعد زندگیاں خطرے میں محسوس ہوئیں اور انہوں نے پاکستان میں پناہ لی۔
منتظر مگر زیرِ حراست: جرمن پروگرامز کے اہل افراد بھی گرفت میں
اسلام آباد پولیس نے جمعرات کے روز تصدیق کی کہ حالیہ گرفتار افغان شہریوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو جرمنی کے خصوصی پناہ گزین پروگرامز میں رجسٹرڈ تھے۔ ان پروگرامز کے تحت وہ افغان شہری شامل کیے گئے تھے جنہوں نے جرمن فوج یا حکومتی اداروں کے ساتھ افغانستان میں خدمات انجام دی تھیں۔
پولیس کے مطابق، یہ گرفتاریاں اسلام آباد اور سرحدی علاقوں میں ہوئیں، جنہیں ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ قرار دے کر حراست میں لیا گیا۔ تاہم، اس میں ان افغان شہریوں کا بھی احاطہ کیا گیا جنہیں جرمنی نے پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
جرمن وزارت داخلہ نے ان اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایسے افراد کی فہرست فراہم کی گئی ہے جو جرمنی منتقلی کے لیے رجسٹرڈ ہیں، اور ان کے معاملات پر باقاعدہ نظر رکھی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے بتایا کہ ’’ہر کیس کا قانونی جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ جرمنی پر ان افراد کو لانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں۔‘‘
2,400 افغان شہری انتظار میں، خطرات بڑھتے جا رہے ہیں
طالبان کے 2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد ہزاروں افغان شہری پاکستان منتقل ہوئے۔ ان میں سے تقریباً 2,400 افراد وہ ہیں جنہوں نے جرمن حکومت سے تحفظ کے لیے درخواست دی۔ ان میں 350 افراد وہ ہیں جنہوں نے جرمن فوج یا اداروں کے ساتھ کام کیا تھا۔
یہ افراد اب بھی پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور ایڈووکیسی گروپ ’’کابل لفٹ بروکے‘‘ کے مطابق، بعض افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے، جب کہ کچھ افراد، بشمول نابالغ بچے، والدین سے الگ کر دیے گئے ہیں۔
❖ خاندان بکھر گئے، کمسن بچیاں تنہا ملک بدر
کابل لفٹ بروکے نے انکشاف کیا کہ دو کمسن بہنوں کو — جن کی عمریں 17 اور 18 سال ہیں — ان کے خاندان سے الگ کر کے افغانستان بھیج دیا گیا۔ گروپ کے مطابق، ’’اسلام آباد میں جرمن سفارت خانہ ان افراد کو مؤثر تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔‘‘
متاثرہ افراد میں وہ خاندان بھی شامل ہیں جن کے حق میں جرمن عدالتوں نے ہنگامی فیصلے دیے ہیں۔ برلن کی ایک عدالت نے ایک افغان خاندان کو جرمنی داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے، اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
صحافی، سماجی کارکن اور مترجمین: کس جرم کی سزا؟
’’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘ نے جرمن حکومت سے ایک افغان صحافی کی رہائی کے لیے فوری اقدام کی اپیل کی ہے، جسے پاکستان میں حراست میں لیا گیا ہے حالانکہ اسے جرمنی میں داخلے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایڈووکیسی گروپس کا کہنا ہے کہ متعدد ایسے افغان شہری ہیں جنہوں نے جرمن سفارت خانے یا جی آئی زیڈ (جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون) کے ذریعے مکمل رجسٹریشن کروائی ہے، مگر ان کی درخواستوں پر ویزے جاری کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
30 لاکھ افغان مہاجرین کا انخلا: دباؤ یا انسانی بحران؟
پاکستانی حکام نے 2023 کے آخر میں افغان شہریوں کی ملک بدری کا عمل شروع کیا تھا، جس کا دعویٰ تھا کہ یہ اقدام قومی سلامتی اور طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، 2024 کے اپریل میں اس پالیسی کا دائرہ رجسٹرڈ افغان شہریوں تک بھی بڑھا دیا گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگ، ظلم اور سیاسی افراتفری سے فرار ہو کر پاکستان آئی۔
بین الاقوامی تنقید: ’’یہ ایک اسکینڈل ہے‘‘
جرمنی کی گرین پارٹی کی رہنما شاہینہ گمبیر نے افغان شہریوں کی گرفتاری اور ممکنہ ملک بدری کو ’’ایک اسکینڈل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’حکومت ان افراد کی قانونی طور پر تسلیم شدہ پناہ گزینی کے حق کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘‘
اسی طرح سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کی کلارا بُنگر نے صورتحال کو ’’انتہائی غیر انسانی‘‘ قرار دیتے ہوئے ویزوں کے فوری اجرا اور ملک بدریوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
کابل لفٹ بروکے کے مطابق، ان کے پاس کم از کم 15 ایسے عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں متاثرہ افراد کے جرمنی میں داخلے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، لیکن حکومتی اپیلیں ان فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا سبب بن رہی ہیں۔
انسانی زندگیوں کے بیچ سیاسی فیصلے
پاکستان میں افغان مہاجرین کی ملک بدری ایک پیچیدہ سیاسی، قانونی اور انسانی مسئلہ بن چکی ہے۔ ان افراد کی زندگی، تحفظ اور مستقبل ایسے نازک دھاگے پر جھول رہے ہیں جہاں بین الاقوامی وعدے، عدالتی فیصلے اور زمینی حقیقتیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو ان افغان شہریوں کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اور جرمنی جیسے ملکوں کے انسانی حقوق کے وعدے محض کاغذی دعوے بن کر رہ جائیں گے۔