
اسلام آباد / کراچی / لاہور
پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بے ضابطگیاں اور زمینوں پر قبضے ایک طویل عرصے سے عوامی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد کوئی نیا اسکینڈل منظرِ عام پر آتا ہے، لیکن عملی احتساب کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں ملک ریاض جیسے بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کے خلاف نیب کی کارروائیوں نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے — کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سیکٹر کے خلاف سنجیدہ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے یا یہ سب کچھ محض سیاسی تعلقات کی بنیاد پر ہو رہا ہے؟
ملک ریاض کے خلاف نیب کی کارروائیاں: ایک مثال یا ابتدا؟
قومی احتساب بیورو (نیب) نے حال ہی میں ملک ریاض کے قریبی رشتہ دار کی جائیدادیں نیلام کی ہیں۔ یہ نیلامی 190 ملین پاؤنڈز کے اس کیس کا حصہ ہے، جس میں سپریم کورٹ کے ذریعے وصول کی جانے والی رقم دراصل حکومتی اکاؤنٹ میں جانی چاہیے تھی، مگر اسے مبینہ طور پر القادر ٹرسٹ کو منتقل کیا گیا۔
یاد رہے، یہ وہی کیس ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سزا سنائی گئی۔ اس کیس میں ملک ریاض شریکِ ملزم ہیں اور یو اے ای میں مقیم ہیں۔ پاکستان نے ان کی حوالگی کے لیے باضابطہ طور پر اقدام کا دعویٰ کیا ہے، مگر اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
اس کے ساتھ ہی کراچی، راولپنڈی اور دیگر علاقوں میں زمینوں پر قبضے کے کیسز میں بھی نیب کی جانب سے کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ احتساب واقعی تمام ہاؤسنگ اسکیموں پر لاگو ہو رہا ہے یا مخصوص افراد کے گرد محدود ہے؟
ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن: مشترکہ اسکیم، یکطرفہ کارروائی؟
نیب کی کارروائیاں اس وقت سوالیہ نشان بن جاتی ہیں جب دیکھا جائے کہ ڈی ایچ اے ویلی جیسے منصوبے، جو کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کا مشترکہ منصوبہ تھا، آج بھی ہزاروں متاثرین کا منہ تک رہا ہے۔ ان افراد کو ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن انہیں پلاٹ الاٹ نہیں ہوئے۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 2021 میں ڈی ایچ اے کو لینڈ گریبنگ کا ذمہ دار قرار دیا، مگر اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق، بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے کراچی-حیدرآباد موٹروے کے ساتھ 785 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مگر کارروائی صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود نظر آتی ہے۔
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز: فہرستیں تو ہیں، عملدرآمد کیوں نہیں؟
اسلام آباد میں سی ڈی اے نے حال ہی میں 99 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو غیر قانونی قرار دیا ہے، جن میں معروف نام جیسے غوری ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن بھی شامل ہیں۔ لیکن ان سوسائٹیز میں آج بھی تعمیرات جاری ہیں اور گھروں کی خرید و فروخت معمول کا عمل ہے۔
ریئل اسٹیٹ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سردار طاہر محمود کا کہنا ہے:
"ادارے صرف لسٹیں جاری کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سوسائٹیز غیر قانونی ہیں تو انہیں چلنے کیوں دیا جا رہا ہے؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟”
تاخیر زدہ سرکاری اسکیمیں: وعدے وفا نہ ہو سکے
یہ صرف نجی سیکٹر نہیں بلکہ سرکاری ادارے بھی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سی ڈی اے کے سیکٹرز — E-12، C-14، C-15 اور I-12 — دہائیوں سے التوا کا شکار ہیں۔ فراہم کردہ پلاٹ آج تک مالکان کے حوالے نہیں کیے جا سکے۔ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی اسکیم گرین انکلیو بھی ایک دہائی سے ترقیاتی مراحل میں پھنسی ہوئی ہے۔
ماہرین کی رائے: مخصوص احتساب یا نظامی اصلاح؟
نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کہتے ہیں:
"ملک ریاض کی جائیداد کی نیلامی قانون کے مطابق ہے، کیونکہ انہوں نے پلی بارگین معاہدے کی شرائط پوری نہیں کیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ احتساب کا عمل تمام بے ضابطگیوں پر یکساں لاگو ہو رہا ہے؟”
اسی طرح بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا ہے:
"یہ کارروائی مخصوص کیس کی بنیاد پر ہو رہی ہے کیونکہ ملک ریاض القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے شریکِ ملزم ہیں۔ تاہم اگر دیگر ہاؤسنگ منصوبوں میں کرپشن ہے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔”
متاثرین کی آواز: ’’ہم نے زندگی کی جمع پونجی لٹا دی‘‘
ملک بھر میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ لینے کے لیے اپنی زندگی کی بچت لگا دی، مگر آج وہ نہ زمین کے مالک بن سکے اور نہ ہی انصاف کے۔ کئی کیسز عدالتوں میں برسوں سے زیر التوا ہیں، جبکہ متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
احتساب کا آغاز یا سیاسی انتقام؟
ملک ریاض کے خلاف کارروائیوں نے یقینی طور پر ہاؤسنگ مافیا کے احتساب کی ایک نئی امید جگائی ہے، لیکن جب تک یہ کارروائیاں تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز، سرکاری اداروں اور بااثر افراد تک یکساں نہ پہنچیں، یہ صرف ایک مخصوص سیاسی واقعے کی پیداوار سمجھی جائیں گی۔
پاکستان میں ہاؤسنگ کے شعبے میں انقلابی اصلاحات، شفاف پالیسی سازی، اور سخت عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی پاکستانی شہری اپنی زندگی کی پونجی کھو کر ناامیدی کی دہلیز پر نہ پہنچے۔