یورپاہم خبریں

یورپی یونین کا اسرائیل پر زور: "ای ون سیٹلمنٹ منصوبے سے باز رہے، دو ریاستی حل کو خطرہ لاحق ہے”

اس اقدام کو ان ممالک کے خلاف "جواب" قرار دیا جنہوں نے حالیہ مہینوں میں فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے

برسلز / یروشلم (بین الاقوامی خبر رساں ادارہ) — یورپی یونین نے جمعرات کے روز اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے حساس اور متنازعہ علاقے میں یہودی آباد کاری کے منصوبے کو فوری طور پر روک دے۔ یورپی یونین کی نئی اعلیٰ خارجہ پالیسی نمائندہ کایا کالاس نے اسرائیل کے مجوزہ "ای ون سیٹلمنٹ پلان” کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور خطے میں دو ریاستی حل کے امکانات کے لیے ایک خطرناک دھچکا قرار دیا ہے۔

اپنے ایک باضابطہ بیان میں کایا کالاس نے کہا:

"اسرائیلی حکام کی جانب سے ای ون سیٹلمنٹ منصوبے میں پیش رفت کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی باقی ماندہ امیدیں بھی دم توڑ سکتی ہیں۔ یورپی یونین حکومتِ اسرائیل پر زور دیتی ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور اسے آگے بڑھانے سے باز رہے۔”

متنازعہ منصوبہ اور وزیر خزانہ کی حمایت

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ ان کی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے کے "ای ون” علاقے میں 3,400 یہودی مکانات کی تعمیر کے منصوبے کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو ان ممالک کے خلاف "جواب” قرار دیا جنہوں نے حالیہ مہینوں میں فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سموٹریچ نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کی خودمختاری کے نفاذ کا حصہ ہے اور مغربی کنارے کے مکمل الحاق کی راہ ہموار کرے گا۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا ردعمل

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے بھی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

"اگر ای ون منصوبے پر عملدرآمد ہوا تو یہ دو ریاستی حل کے تصور کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔”

بین الاقوامی قوانین کے تحت مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادیاں غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں، اور اقوامِ متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی ادارے ان بستیوں کو فلسطینیوں کے حقوق، زمین اور ریاستی تشخص کے خلاف قرار دیتے آئے ہیں۔

ای ون منصوبہ: جغرافیائی اور سیاسی خطرات

"ای ون” ایک انتہائی حساس علاقہ ہے جو یروشلم کے مشرق میں واقع ہے اور اسرائیلی بستی "معالیہ ادومیم” کو قدیم شہر یروشلم سے ملانے کی کوشش کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں تعمیرات کا مقصد بظاہر ایک زمینی رابطہ قائم کرنا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے مستقبل کی کسی بھی فلسطینی ریاست کی جغرافیائی وحدت متاثر ہوگی۔

تقریباً 12 مربع کلومیٹر پر محیط یہ علاقہ مغربی کنارے کے شمال اور جنوب کو جوڑنے والے زمینی راستے کے بیچ واقع ہے۔ اگر اسرائیل اس علاقے کو مکمل طور پر آباد کر دیتا ہے تو فلسطینی علاقوں کا اندرونی رابطہ منقطع ہو جائے گا، جو کسی بھی عملی فلسطینی ریاست کی بنیاد کے لیے لازم ہے۔

اسرائیل کا مؤقف

اسرائیلی حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ علاقہ "اسرائیل کی سلامتی اور قومی مفادات” کے لیے اہم ہے، اور وہاں تعمیرات کا مقصد "فطری توسیع” ہے۔ وزیر خزانہ سموٹریچ کا کہنا تھا کہ:

"ہم بین الاقوامی دباؤ سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ ای ون میں تعمیرات ہمارے قومی حقوق اور یہودی تاریخ کا حصہ ہیں۔”

عالمی خدشات اور سفارتی مطالبات

یورپی یونین، اقوام متحدہ، اور دیگر عالمی ادارے زور دے رہے ہیں کہ اسرائیل فوری طور پر اس منصوبے کو ترک کرے، کیونکہ اس سے نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ فلسطینیوں میں مزید مایوسی اور ردعمل پیدا ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل ای ون منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیتا ہے، تو اس کے اثرات صرف فلسطینی علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ عالمی سفارتکاری، مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات، اور اسلامی دنیا کے ردعمل پر بھی گہرے اثرات ڈالے گا۔


ادارتی تبصرہ:
ای ون منصوبہ ایک بار پھر اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اسرائیل کی آبادکاری پالیسی نہ صرف بین الاقوامی اصولوں سے متصادم ہے بلکہ یہ فلسطینی عوام کے مستقبل اور خطے کے امن کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی برادری کو اب الفاظ سے آگے بڑھتے ہوئے ٹھوس سفارتی، قانونی اور معاشی اقدامات کی طرف جانا ہوگا، ورنہ دو ریاستی حل محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button