
اسلام آباد خصوصی نمائندہ – پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں درجنوں مساجد ایسی ہیں جنہیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) "غیر قانونی تعمیرات” قرار دیتی ہے۔ حال ہی میں راول ڈیم چوک پر واقع مدنی مسجد کو سی ڈی اے نے منہدم کر دیا، جس کے بعد نہ صرف مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا بلکہ سوشل میڈیا پر ایک بھرپور بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ آخر ان مساجد کے مستقبل کا حل کیا ہے؟
مدنی مسجد کا انہدام اور ردِعمل
مدنی مسجد کو رات کی تاریکی میں منہدم کیا گیا، اور صبح تک وہاں سبزہ کاری کر دی گئی۔ سی ڈی اے کا موقف ہے کہ یہ کارروائی قانونی طریقے اور مسجد انتظامیہ کی رضامندی سے ہوئی، لیکن مسجد سے وابستہ افراد اور مذہبی طبقے کا دعویٰ ہے کہ معاہدہ صرف مدرسے کی منتقلی تک محدود تھا، مسجد کی مسماری اس معاہدے کا حصہ نہیں تھی۔
اس واقعے نے مذہبی رہنماؤں، علما، اور عوامی دانشوروں کے حلقے میں ایک تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے اس اقدام کے خلاف کھلی مزاحمت کا عندیہ دیتے ہوئے سول نافرمانی کی دھمکی دے دی، جو صورتحال کو مزید حساس بنا رہی ہے۔
تاریخی و سماجی پس منظر
اسلام آباد ایک منصوبہ بند شہر ہے، جس میں گرین بیلٹس، موسمی نالے، اور کھلے مقامات شہری حسن کا اہم جزو ہیں۔ لیکن دہائیوں سے یہاں مساجد و مدارس کی بلا اجازت تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ 2013 کی ایک سی ڈی اے رپورٹ کے مطابق 233 ایسی مساجد ہیں جو قانونی منظوری کے بغیر تعمیر ہوئیں، جبکہ 259 قانونی مساجد میں سے کئی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں نے ماضی میں کچھ مذہبی گروہوں کو سہولت دی، جس سے انہوں نے جہاں چاہا اپنی "ڈیڑھ اینٹ کی مسجد” قائم کر لی۔
سی ڈی اے کی ناکامی: انتظامی، مالی اور مسلکی عوامل
اسلام آباد کی تاریخ پر کتابیں لکھنے والے سجاد اظہر کہتے ہیں کہ سی ڈی اے میں مستقل، بااختیار انتظامیہ کی کمی ہے، اور نچلے درجے کے عملے کے مالی مفادات اور ذاتی تعصبات اس عمل میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔
سی ڈی اے کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا:
"ہم پر دباؤ بہت ہوتا ہے۔ مذہبی گروہوں کے ردِعمل کی وجہ سے کئی بار آپریشن روکنا پڑتا ہے۔ نہ ہم نے یہ گروہ پیدا کیے، نہ ہم ان سے نمٹنے کے مجاز ہیں۔”
یہی وجہ ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک میں بڑے ہوٹل، کنٹری کلبز قائم ہو سکتے ہیں، مگر جب کسی چھوٹی مسجد پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ریاستی اداروں کو عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ریاست، مذہب اور پالیسی کی الجھن
رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین خورشید ندیم کہتے ہیں:
"مسجد کا کردار سماجی ہونا چاہیے، سیاسی نہیں۔ بدقسمتی سے ریاست نے انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔”
وہ تجویز دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ علما کی مشاورت سے ایک جامع قانون سازی کرے، جو مساجد کی تعمیر، ریگولرائزیشن اور ان کے انتظام کو منظم کرے۔
پائیدار اور پُرامن حل کی تجاویز
اسلام آباد کے سماجی اور قانونی ماہرین اس مسئلے کے پرامن اور تدریجی حل پر زور دے رہے ہیں:
قانون سازی اور پارلیمانی مشاورت:
علما، سول سوسائٹی، شہری حکومت اور قانونی ماہرین کو اعتماد میں لے کر مساجد و مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرائی جائے۔ریگولرائزیشن کا عمل:
جو مساجد عوامی ضرورت پوری کر رہی ہیں اور بظاہر تنازعات سے پاک ہیں، ان پر جرمانہ یا متبادل زمین دے کر مرحلہ وار ریگولرائز کیا جائے۔نئی مساجد کے لیے سخت قواعد:
نئی تعمیرات کے لیے نقشہ، اجازت نامہ، زمین کی الاٹمنٹ اور باقاعدہ لائسنسنگ سسٹم متعارف کرایا جائے۔آزاد مانیٹرنگ کمیٹی:
ان اصولوں پر عملدرآمد کے لیے ایک آزاد بین المسالک کمیٹی قائم کی جائے جو تعصب، سیاست یا دباؤ سے بالا تر ہو کر فیصلے کرے۔شفافیت اور عوامی شرکت:
تمام اقدامات کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ شکوک و شبہات نہ رہیں اور مقامی کمیونٹیز خود اس عمل کا حصہ بنیں۔
حل قانون اور شفافیت میں ہے
اسلام آباد میں غیر قانونی مساجد کے معاملے پر ریاستی اداروں اور مذہبی طبقے کے درمیان براہ راست تصادم کی فضا پیدا ہو رہی ہے، جو کسی بھی وقت وسیع انتشار میں بدل سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں فوری ضرورت ہے کہ ریاست طاقتور اور کمزور کے لیے یکساں قانون نافذ کرے، اور ساتھ ہی مذہبی حساسیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پرامن، تدریجی اور شفاف حکمت عملی اپنائے۔
جب تک ریاست یکساں قانون پر عمل درآمد اور مذہب کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنے کی جرات نہیں کرتی، اسلام آباد جیسے شہروں میں غیر قانونی تعمیرات صرف انتظامی نہیں بلکہ سماجی بحران کی صورت اختیار کرتے رہیں گے۔