
پاکستان میں خواتین کو لاحق تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ: سروائیکل کینسر اور ایچ پی وی ویکسین سے جڑی سماجی رکاوٹیں
آگاہی کی کمی، سماجی قدغنیں اور حکومتی اقدامات کی سست روی؛ بچاؤ ممکن ہونے کے باوجود سروائیکل کینسر سے اموات جاری
(خصوصی رپورٹ)
پاکستان میں خواتین کو لاحق مہلک بیماریوں میں سروائیکل کینسر تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک خاموش وبا بنتی جا رہی ہے۔ ماہرین صحت، سرکاری ادارے، اور بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل متنبہ کر رہی ہیں کہ اگر اس مرض کی بروقت تشخیص اور مؤثر روک تھام نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں لاکھوں خواتین کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سب سے اہم حفاظتی تدبیر ایچ پی وی ویکسینیشن کو سمجھا جاتا ہے، جو دنیا بھر میں 9 سے 14 برس کی لڑکیوں کو دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں اس ویکسین سے متعلق آگاہی کا شدید فقدان اور سماجی رکاوٹیں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تشویشناک اعداد و شمار: ہزاروں خواتین ہر سال متاثر، ہزاروں اموات
ایچ پی وی انفارمیشن سینٹر کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 5002 خواتین میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی، جن میں سے 3200 خواتین انتقال کر گئیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو رجسٹرڈ کیسز پر مبنی ہیں، جبکہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں درست تشخیص نہ ہونے کے باعث حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ حکیم، گائناکولوجسٹ حیات میڈیکل کمپلیکس، پشاور، کہتی ہیں کہ "سروائیکل کینسر ان چند اقسام میں سے ایک ہے جس کی اسکریننگ ممکن ہے۔ اس کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کے لیے صرف ایک سادہ سا ٹیسٹ – پیپ سمیئر – درکار ہوتا ہے، جو اب کئی دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہے، لیکن خواتین کو اس کی اہمیت اور وقت پر کروانے کی ضرورت کا علم ہی نہیں۔”
ایک مریضہ کی کہانی: تعلیم یافتہ فیملی، پھر بھی خوف، شرمندگی اور چھپانے کی خواہش
45 سالہ نادیہ افضال (فرضی نام) کا تعلق حیدرآباد، سندھ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے، "جب سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی تو مجھے لگا کہ میری زندگی ختم ہو گئی ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں یہ بتانا بہت مشکل تھا، جہاں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود توہمات کا غلبہ ہے۔”
ان کی بیٹی نمرہ، جو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس کی طالبہ ہیں، ماں کے علاج کے لیے مضبوط سہارا بنیں۔ وہ خود یونیورسٹی میں سروائیکل کینسر پر ہونے والی ورکشاپس اور آگاہی گروپس کا حصہ رہی ہیں۔ نمرہ کہتی ہیں، "ہماری سوسائٹی میں نہ صرف بریسٹ کینسر، بلکہ ایڈز اور سروائیکل کینسر جیسے امراض کو بدنامی سمجھ کر چھپایا جاتا ہے، جس کا نقصان خواتین کو جان کی صورت میں ہوتا ہے۔”
سروائیکل کینسر: مرض، وجوہات اور بچاؤ
سروائیکل کینسر، خواتین کی بچہ دانی کے منہ (سرویکس) کا سرطان ہے۔ یہ عام طور پر ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کی وجہ سے ہوتا ہے، جو ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا وائرس ہے اور خواتین کے جلدی خلیات کو متاثر کرتا ہے۔ بعض مخصوص اقسام کا HPV وائرس سرویکس کے خلیات میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جو بالآخر سرطان کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایچ پی وی ویکسین: بچاؤ ممکن، لیکن عملی رکاوٹیں بے شمار
ایچ پی وی ویکسین دنیا کے بیشتر ممالک میں لڑکیوں کو 9 سے 14 سال کی عمر میں دی جاتی ہے، تاکہ بعد ازاں کینسر سے بچا جا سکے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی سفارشات کے مطابق، یہ ویکسین شادی سے قبل لگوانا زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں سندھ حکومت نے سن 2022 میں پہلی بار ایچ پی وی ویکسینیشن مہم کا اعلان کیا تھا، مگر سماجی مخالفت اور آگاہی کی کمی کے باعث اس پر مؤثر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
ڈاکٹر امینہ خان، کنٹری مینیجر برائے جانز ہاپکنز پروگرام، کہتی ہیں، "ہمارے ہاں سب سے بڑی رکاوٹ والدین کا ذہنی تحفظات اور لاعلمی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ویکسین کسی اخلاقی مسئلے سے جڑی ہے، جب کہ حقیقت میں یہ زندگی بچانے والی دوا ہے۔”
سندھ سے پنجاب اور کے پی تک: آگاہی مہمات اور حکومتی اقدامات
سندھ میں اب 15 سے 27 ستمبر 2025 کے درمیان ایچ پی وی ویکسینیشن مہم دوبارہ شروع کی جا رہی ہے۔
پنجاب میں نومبر 2025 سے شروع ہونے والی مہم میں 80 لاکھ لڑکیوں کو ویکسین لگانے کی تیاریاں جاری ہیں۔
خیبر پختونخوا میں بھی آنے والے مہینوں میں مہم کا آغاز متوقع ہے۔
تاہم بلوچستان میں صورتحال بدستور مایوس کن ہے۔
ڈاکٹر علیشبہ اچکزئی، سول ہسپتال کوئٹہ سے منسلک گائناکولوجسٹ، کہتی ہیں، "بلوچستان میں نہ صرف آگاہی کا فقدان ہے بلکہ خواتین معائنے کے لیے بھی ہسپتال دیر سے آتی ہیں۔ اکثر اوقات جب تشخیص ہوتی ہے تو کینسر آخری اسٹیج پر ہوتا ہے اور علاج ممکن نہیں رہتا۔”
سماجی رکاوٹیں: ‘غیرت’ اور ‘بدنامی’ کی سوچ قاتل بن رہی ہے
ماہرین صحت متفق ہیں کہ اگر سماجی رویوں میں تبدیلی نہ آئی تو ویکسینیشن اور اسکریننگ جیسے سادہ اقدامات بھی مؤثر نہیں ہو سکیں گے۔ پاکستان میں صحت کے کئی پہلو اب بھی ‘غیرت’، ‘شرم’ یا ‘بدنامی’ جیسے مفروضوں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں، جو خواتین کی جان لینے کا باعث بن رہے ہیں۔
حکومت اور عالمی اداروں کی نئی حکمتِ عملی
یونیسف اور گاوی کی مالی امداد سے پاکستان میں آنے والے مہینوں میں ملک گیر ایچ پی وی ویکسینیشن مہم چلائی جائے گی، جس کے لیے نالج، ایٹیٹیوڈ اور بیہیوئر ریسرچ پر مبنی قومی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ اگر والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، اور میڈیا متحرک کردار ادا کریں تو پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے جہاں سروائیکل کینسر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
نتیجہ: آگاہی، ویکسین اور وقت پر تشخیص ہی زندگی کی ضمانت
سروائیکل کینسر ایک ایسا مرض ہے جو روکا جا سکتا ہے، وقت پر تشخیص کیا جا سکتا ہے، اور مکمل طور پر علاج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب خواتین، والدین، اور معاشرہ اس مرض کو سمجھنے اور اس پر کھل کر بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایچ پی وی ویکسین کسی بھی لڑکی کا بنیادی حق ہے، اور اس سے انکار صرف لاعلمی یا تعصب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ اب وقت ہے کہ ہم خاموشی، شرم اور تاخیر کو پیچھے چھوڑ کر زندگی کی طرف قدم بڑھائیں۔