بین الاقوامی

افغانستان میں پانی پر کنٹرول کی نئی دوڑ: طالبان کے ڈیم اور نہری منصوبے علاقائی کشیدگی کا پیش خیمہ؟

خطہ اب ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پانی یا تو تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے، یا کشیدگی کی لکیر۔

کابل :
افغانستان، جو عشروں تک داخلی جنگ و خانہ جنگی کے باعث ریاستی کمزوری، تباہ شدہ معیشت اور بدترین بنیادی ڈھانچے کا شکار رہا، اب آبی وسائل پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کے ایک نئے، جارحانہ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد، جہاں ایک طرف عالمی سطح پر انہیں سیاسی تنہائی کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب انہوں نے اندرون ملک ڈیموں، نہروں اور آبی منصوبوں کے ذریعے نہ صرف خوراکی تحفظ (فوڈ سکیورٹی) بلکہ ریاستی کنٹرول کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔

مگر یہ کوششیں اب ہمسایہ ممالک — ایران، ازبکستان، ترکمانستان اور پاکستان — کے لیے پانی پر ممکنہ تنازعات کا آغاز بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔


طالبان کا نیا آبی ویژن: خودکفالت یا علاقائی کشیدگی؟

طالبان کی حکومت نے افغانستان میں طویل جنگ کے بعد پانی کو قومی خودمختاری اور اقتصادی بقا کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے کئی اہم منصوبے شروع کیے ہیں:

  • قوش تپہ میگا کینال منصوبہ

  • پشدان ڈیم (ہریرود طاس)

  • ہلمند پر نئے کنٹرول اقدامات

  • دریائے کابل پر منصوبہ بندی

یہ تمام اقدامات افغانستان کو زراعت، توانائی اور شہری ضروریات میں خود کفیل بنانے کے ہدف سے جڑے ہیں، لیکن اس کا علاقائی قیمت پر کیا اثر پڑے گا؟ یہی سوال اب وسطی ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک سفارتی اور ماحولیاتی حلقوں میں موضوع بن چکا ہے۔


قوش تپہ نہر: آمو دریا پر دباؤ، ازبکستان و ترکمانستان کو خطرہ

طالبان کا قوش تپہ کینال منصوبہ، جو افغانستان کے خشک شمال میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر اراضی کو سیراب کرنے کے لیے آمو دریا سے پانی موڑنے پر مبنی ہے، وسطی ایشیائی ممالک کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے۔

یہ منصوبہ آمو دریا کے کل بہاؤ کا 21 فیصد پانی افغانستان کی طرف لے جا سکتا ہے، جو:

  • ازبکستان اور ترکمانستان کی آبی ضروریات پر اثر انداز ہوگا

  • سوویت دور کے نازک معاہدوں کو غیر مستحکم کرے گا

  • پہلے سے سکڑتے بحیرہ ارال کے ماحولیاتی بحران کو مزید بڑھا سکتا ہے

ماہر واٹر پالیسی محمد فیضی کا کہنا ہے:

"جتنا بھی خوش گفتاری کا مظاہرہ کیا جائے، عملی سطح پر نہر کے مکمل ہونے کے بعد ازبکستان اور ترکمانستان کو اس کے سنگین اثرات جھیلنے ہوں گے۔”

طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ یہ نہر صرف اضافی یا سیلابی پانی استعمال کرے گی اور اس سے آمو دریا کی مجموعی سطح پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
پروجیکٹ مینیجر سید ذبیح اللہ میری کے مطابق:

"گرمیوں میں گلیشیئر پگھلنے سے پانی کی بہتات ہوتی ہے، ہم اسی کو استعمال میں لا رہے ہیں۔”

تاہم، اس دعوے کو علاقائی ماہرین غیر حقیقت پسندانہ اور ناکافی ماحولیاتی تجزیے کے بغیر لیا گیا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔


ہلمند دریا: ایران اور افغانستان کے مابین پرانا تنازع، نئی تلخیاں

افغانستان اور ایران کے درمیان ہلمند دریا کے پانی کی تقسیم کا واحد باقاعدہ معاہدہ 1973ء میں ہوا، مگر اس پر آج تک مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔
حالیہ برسوں میں ایران نے:

  • افغانستان پر پانی روکنے کا الزام لگایا

  • خشک سالی کے شکار صوبے سیستان و بلوچستان میں شدید بحران کی نشاندہی کی

  • طالبان پر بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کا دعویٰ کیا

طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ:

  • وہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہے

  • پانی کی کمی کا سبب ماحولیاتی تبدیلی ہے

  • ڈیموں کی تعمیر، فوڈ سکیورٹی اور داخلی ترقی کا حصہ ہے

تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر ہلمند پر کشیدگی بڑھی تو دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔


ہریرود طاس اور پشدان ڈیم: ترکمانستان کا اگلا خدشہ؟

افغانستان، ایران اور ترکمانستان کے درمیان ہریرود دریا پر کبھی بھی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔
مگر افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد طالبان نے پشدان ڈیم جیسے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔
واٹر ایکسپرٹ فیضی کے مطابق:

"افغانستان کے پاس اس طاس پر بنیادی ڈھانچہ تو تھا، لیکن عدم سیکیورٹی کے باعث اس کا استعمال نہیں ہو سکا۔ اب یہ ممکن ہو چکا ہے۔”

ترکمانستان کو خدشہ ہے کہ ہریرود پر افغان کنٹرول بڑھنے سے اسے پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے، خاص طور پر زراعت اور بجلی کے شعبے میں۔


پاکستان کے ساتھ بھی تناؤ کے آثار؟ دریائے کابل پر ممکنہ دباؤ

افغانستان اور پاکستان کے درمیان دریائے کابل کی صورت میں مشترکہ آبی نظام موجود ہے، مگر:

  • کوئی باضابطہ معاہدہ یا مکینزم موجود نہیں

  • دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہتے ہیں

کابل شہر اور آس پاس کے علاقوں میں شدید آبی بحران نے طالبان حکومت کو پرانے منصوبوں کی بحالی اور نئے منصوبے شروع کرنے پر مجبور کیا، جن میں سے کئی ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے پانی کے بہاؤ میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

تاہم، موجودہ مالیاتی اور تکنیکی رکاوٹیں ان منصوبوں کو تیزی سے مکمل ہونے سے روک رہی ہیں۔


ماحولیاتی تبدیلی: ایک مشترکہ خطرہ، مگر علاقائی تعاون کا فقدان

پورا خطہ — افغانستان، وسطی ایشیا، ایران، پاکستان — ایک مشترکہ ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے:

  • گلیشیئرز کا پگھلاؤ

  • بے وقت بارشیں

  • خشک سالی

  • پانی کی قلت

لیکن اس سنگین پس منظر کے باوجود علاقائی آبی تعاون کا کوئی مؤثر فریم ورک موجود نہیں۔
سوویت دور کے فرسودہ معاہدے اور ریاستی خود مختاری پر اصرار، ایک نئے، مشترکہ آبی ڈھانچے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔


کیا افغانستان نیا ’واٹر پاور‘ بننے جا رہا ہے؟

افغانستان کی جغرافیائی حیثیت — پانچ بڑے دریائی طاسوں کا منبع ہونے کی وجہ سے — اسے خطے میں "واٹر پاور” بنا سکتی ہے، بشرطیکہ:

  • وہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا لحاظ کرے

  • علاقائی مذاکرات اور اعتماد سازی میں سنجیدگی دکھائے

  • ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنائے

بصورت دیگر، پانی سے ترقی کی راہ نئے تنازعات، سفارتی محاذ آرائی اور ماحولیاتی تباہی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔


نتیجہ: پانی صرف قدرتی وسیلہ نہیں، بلکہ سفارتی طاقت بھی

طالبان حکومت کے لیے یہ آبی منصوبے صرف زرعی خود کفالت یا توانائی کا ذریعہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔

لیکن اگر ان منصوبوں میں شفافیت، علاقائی مشاورت، اور بین الاقوامی معیارات کا فقدان رہا، تو یہ امن و ترقی کے بجائے تنازعات اور ماحولیاتی عدم توازن کو جنم دے سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button