
برلن : جرمنی میں ریاستی فلاحی نظام کے تحت مالی امداد کی رقوم میں سال 2024 کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جس نے نہ صرف حکومتی پالیسیوں پر سیاسی بحث کو جنم دیا ہے بلکہ ملک کی معاشی صورتحال اور سماجی یکجہتی کے حوالے سے بھی کئی اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ جرمن وزارت برائے سماجی امور کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، سال 2024 میں ’’بُرگرگیلڈ‘‘ (Bürgergeld) کے تحت مجموعی طور پر 46.9 بلین یورو کی مالی امداد فراہم کی گئی، جو اس فلاحی پروگرام کی تاریخ کی سب سے بڑی رقم ہے۔
برگرگیلڈ: فلاحی نظام کی ریڑھ کی ہڈی
برگرگیلڈ، جرمنی کا بنیادی ویلفیئر پروگرام ہے، جس کے تحت ان افراد کو مالی امداد دی جاتی ہے جو اپنی بنیادی ضروریات — جیسے خوراک، رہائش، اور دیگر روزمرہ اخراجات — خود سے پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ اسکیم خاص طور پر ان شہریوں کے لیے بنائی گئی ہے جو کام کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن یا تو بے روزگار ہیں یا ان کی آمدنی ناکافی ہے۔
2024 میں اس نظام کے تحت کل 5.5 ملین افراد کو مالی مدد فراہم کی گئی، جن میں تقریباً چار ملین ایسے افراد شامل تھے جو جسمانی طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، یعنی وہ روزانہ کم از کم تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔
جرمن اور غیر جرمن وصول کنندگان کی تقسیم
اعداد و شمار کے مطابق، اس سال برگرگیلڈ کے تحت کل ادائیگیوں کا 52.6 فیصد یعنی 24.7 بلین یورو جرمن شہریوں کو دیا گیا، جبکہ 47.4 فیصد یعنی 22.2 بلین یورو غیر ملکیوں کو فراہم کیے گئے، جو جرمنی میں مقیم ہیں۔ غیر ملکی وصول کنندگان میں سب سے بڑی تعداد یوکرینی پناہ گزینوں کی تھی، جنہیں 6.3 بلین یورو کی امداد فراہم کی گئی۔
یہ تقسیم پچھلے سال کے اعداد و شمار سے زیادہ مختلف نہیں ہے، مگر اس بار اس مسئلے نے سیاسی سطح پر ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔
اے ایف ڈی کی تنقید اور متنازع مطالبات
دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (AfD) کی رکن پارلیمان رینے اشپرنگر نے ان اخراجات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے بقول، ’’یہ اخراجات بے قابو ہو چکے ہیں‘‘ اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ "غیر ملکیوں کے لیے مالی امداد تک رسائی کو سوائے استثنائی حالات کے ختم کیا جانا چاہیے۔”
ان کا یہ بیان اگرچہ کچھ حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے، مگر اس پر شدید ردعمل بھی سامنے آیا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہی ہیں کہ جرمنی میں مقیم غیر ملکی بھی ٹیکس کی ادائیگی کے ذریعے اس نظام میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
ماہرین کی رائے: افراط زر اور مہنگائی کی اثرات
اقتصادی ماہر اور نیورمبرگ میں انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ (IAB) سے وابستہ اینزو ویبر نے اشپرنگر کے مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان ادائیگیوں میں اضافہ دراصل 2023 اور 2024 کے دوران افراط زر اور معیاری نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان کے مطابق، یہ کوئی طویل المدتی رجحان نہیں بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے۔
ویبر نے مزید کہا کہ 2024 کے موسم خزاں سے کام کی صلاحیت رکھنے والے امداد حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، جو ایک ’’مثبت تبدیلی‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔
یوکرینی پناہ گزینوں کی ملازمت میں شمولیت
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی میں مقیم یوکرینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اکتوبر 2023 میں ان کی ملازمت کی شرح 24.8 فیصد تھی، جو اب بڑھ کر 33.2 فیصد ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک امید افزا اشارہ ہے، تاہم انہوں نے زور دیا کہ انضمام کو مزید تیز کرنے کے لیے جرمن زبان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو مزید فروغ دینا ہوگا۔
سماجی ہم آہنگی بمقابلہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ
سماجی حلقوں اور ٹریڈ یونینز نے اے ایف ڈی کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے نفرت انگیز اور معاشرتی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جرمن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (DGB) کی نمائندہ آنیا پیئل نے کہا، ’’اے ایف ڈی کے پاس کوئی تعمیری پالیسی نہیں ہے، صرف نفرت اور امتیاز ہے۔ ہر فرد کو ضرورت کے وقت تحفظ کا حق حاصل ہے۔‘‘
اسی طرح سوشل ایسوسی ایشن جرمنی (VdK) کی چیف ایگزیکٹو مائیکیلا اینگلمائیر نے خبردار کیا کہ "سماجی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ایک خطرناک رجحان ہے، جو معاشرتی تقسیم کو بڑھاتا ہے اور حسد و نفرت کو جنم دیتا ہے۔”
مستقبل کی پالیسی کی سمت
جرمن انسٹی ٹیوٹ فار لیبر مارکیٹ پالیسی کے ترجمان مارک بیادات نے اس صورت حال کو ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ جرمنی کو فوری طور پر نئی بنیادی سکیورٹی پالیسی اپنانا ہوگی جو کام کو ترجیح دے، ملازمت کے مواقع کو منصفانہ بنائے، اور مستحقین کے لیے واضح فرائض و شرائط طے کرے۔
انہوں نے وفاقی وزیر محنت بیربل باس سے مطالبہ کیا کہ ان کی وزارت کو اب نتائج دینے ہوں گے اور اصلاحات کا عمل شروع کرنا ہوگا۔
جرمنی میں بنیادی ریاستی ویلفیئر سسٹم کے تحت مالی امداد میں غیر معمولی اضافہ بلاشبہ ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ معاشی دباو، سیاسی تنقید اور سماجی تقسیم جیسے اہم مسائل کو بھی جنم دے رہا ہے۔ اس نظام کی پائیداری کے لیے ایک متوازن، منصفانہ اور مؤثر اصلاحاتی پالیسی ناگزیر ہے، جو ضرورت مندوں کو سہارا دے اور معاشرتی ہم آہنگی کو قائم رکھے۔