پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر امریکی تشویش: "ہم ہر روز نظر رکھتے ہیں” – وزیر خارجہ مارکو روبیو
’’جنگ بندی کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر فائرنگ بند کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اور روسی ابھی اس پر راضی نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
واشنگٹن، ڈی سی – امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اور جنگ بندی کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق، یہ جنگ بندی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے، جس کے عالمی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ بیان روبیو نے امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے معروف ٹاک شو ’میٹ دی پریس‘ میں دیا، جہاں ان سے بنیادی طور پر روس-یوکرین جنگ پر سوالات کیے گئے تھے۔ تاہم، گفتگو کے دوران انہوں نے جنوبی ایشیا کی جنگ بندی کو عالمی امن کے ایک نازک ستون کے طور پر بیان کیا۔
جنگ بندی کی نازک صورتحال
مارکو روبیو نے کہا:
’’جنگ بندی کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر فائرنگ بند کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اور روسی ابھی اس پر راضی نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے اس بیان کو یوکرین جنگ کے تناظر میں دیا، مگر فوراً بعد انہوں نے جنوبی ایشیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’ہم روزانہ اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کیا ہو رہا ہے۔ جنگ بندی بہت تیزی سے ٹوٹ سکتی ہے۔‘‘
روبینو کے مطابق، جنگ بندی برقرار رکھنا بذات خود ایک مشکل عمل ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں تاریخی دشمنی، سرحدی تنازعات اور سیاسی کشیدگی مسلسل موجود رہتے ہیں۔
"مستقل امن معاہدہ” جنگ بندی سے زیادہ اہم
روبینو نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف جنگ بندی کافی نہیں، بلکہ اس خطے کو ایک مستقل امن معاہدے کی ضرورت ہے:
’’ہمارا مقصد مستقل جنگ بندی نہیں ہے بلکہ مستقل امن معاہدہ ہے تاکہ مستقبل میں بھی جنگ نہ ہو۔‘‘
یہ بیان خاص طور پر اہم اس لیے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2021 میں لائن آف کنٹرول (LoC) پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود وقفے وقفے سے بیاناتی کشیدگی، سرحدی خلاف ورزیاں اور سفارتی الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کا کردار: "ہم خوش قسمت ہیں”
فاکس بزنس کو دیے گئے ایک الگ انٹرویو میں مارکو روبیو نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت میں امریکہ نے دنیا بھر میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو اپنی ترجیح بنایا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں اور ہمیں ایک ایسے صدر کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے امن کے حصول کو اپنی انتظامیہ کی ترجیح بنایا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:
’’ہم نے اسے کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں دیکھا ہے، ہم نے اسے انڈیا اور پاکستان میں دیکھا ہے، ہم نے اسے روانڈا اور ڈی آر سی (ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو) میں دیکھا ہے۔ اور ہم دنیا میں امن لانے کے لیے کسی بھی موقعے کی تلاش جاری رکھیں گے۔‘‘
روبینو کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں مختلف محاذوں پر کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں، اور واشنگٹن میں فیصلہ سازی کے ایوانوں میں عالمی تنازعات کو روکنے اور سفارتی عمل کو فروغ دینے پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت: ایک پرانا مگر خطرناک تنازع
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ اور غیر مستحکم رہے ہیں۔ کشمیر کا تنازع، سرحدی جھڑپیں، دہشتگردی کے الزامات، پانی کے مسائل اور سفارتی تعطل دونوں ممالک کے تعلقات کو مسلسل متاثر کرتے آ رہے ہیں۔ دونوں ملک تین جنگیں لڑ چکے ہیں، اور حالیہ برسوں میں پلوامہ حملہ، بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک اور ایک بھارتی طیارے کی پاکستانی حدود میں تباہی جیسے واقعات نے تعلقات کو مزید بگاڑا۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ بھارت پاکستان کی نیوکلیئر بلیک میلنگ برداشت نہیں کرے گا، جس پر پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ جب پاکستان نے ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا، تو ملک پر "مزید کارروائی نہ کرنے” کا شدید عالمی دباؤ آیا۔
عالمی سطح پر تشویش
روبینو کا یہ بیان ایک مرتبہ پھر اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ بین الاقوامی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں کے حامل ہیں۔
امریکی پالیسی ساز ادارے، ماہرینِ خارجہ اور عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ اور یورپی یونین اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ دونوں ممالک کو سفارتی مذاکرات، اعتماد سازی، اور عوامی بہبود کے اقدامات کے ذریعے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے۔
کیا امن کی کوئی امید ہے؟
مارکو روبیو کے حالیہ بیانات اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کی جنگ بندی کو نازک مگر اہم قرار دیتا ہے۔ اگرچہ سفارتی منظرنامہ پیچیدہ ہے، مگر امن کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے — بشرطیکہ قیادت سنجیدگی، حقیقت پسندی اور عوامی مفاد کو ترجیح دے۔
اگر دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو پسِ پشت ڈال کر نئے انداز میں مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں، تو نہ صرف جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے، بلکہ خطے کے کروڑوں عوام کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی امید بھی دی جا سکتی ہے۔
