
وفاقی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سیلاب متاثرین کے لیے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں — وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس، اہم فیصلے
"مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی وفاقی یا صوبائی تفریق نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت خدمت کا ہے، سیاست کا نہیں۔"
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) — حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے عوام کی مدد اور بحالی کے لیے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں وفاقی وزراء، این ڈی ایم اے اور دیگر اہم اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس میں متاثرہ علاقوں کی موجودہ صورتحال، جاری امدادی سرگرمیوں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیرِ اعظم نے نہ صرف فوری ریلیف کی ہدایات جاری کیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے احکامات بھی دیے کہ "جب تک آخری متاثرہ شخص تک مدد نہیں پہنچتی، متعلقہ وفاقی وزراء وہیں موجود رہیں گے۔”
وزیرِ اعظم کی جانب سے اہم اعلانات:
وفاقی کابینہ کی ایک ماہ کی تنخواہ خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرین کو عطیہ
تمام وفاقی اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ہدایت
متاثرین کو وزیرِ اعظم ریلیف پیکیج کے تحت مالی امداد دینے کا اعلان
تمام متعلقہ وفاقی وزراء کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی ہدایت
وفاقی حکومت، صوبوں اور اداروں کے اشتراک سے بحالی کا عمل تیز کرنے کا فیصلہ
"یہ سیاست کا وقت نہیں، بلکہ خدمت اور مرہم رکھنے کا وقت ہے” — وزیرِ اعظم
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی وفاقی یا صوبائی تفریق نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت خدمت کا ہے، سیاست کا نہیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ متاثرہ افراد کی بحالی، انفراسٹرکچر کی بحالی، ادویات، خوراک، پناہ گاہوں اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔
صحت و خوراک کی سہولیات پر زور
وزیرِ اعظم نے وزارتِ صحت کو ہدایت دی کہ:
ڈاکٹروں کی ٹیمیں فوری متاثرہ علاقوں میں روانہ کی جائیں
طبی کیمپ قائم کیے جائیں
ادویات، ویکسین اور طبی آلات کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے
مزید برآں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کو بھی متاثرین کی مدد کے لیے فوری متحرک کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
انفراسٹرکچر کی بحالی اور نقل و حمل کے راستے کھولنے پر خصوصی ہدایات
وزیرِ اعظم نے وزارتِ مواصلات، این ایچ اے اور ایف ڈبلیو او کو ہدایت دی کہ:
شاہراہوں، پلوں، سڑکوں کی مرمت فوری کی جائے
امدادی قافلوں کے لیے راستے ترجیحی بنیادوں پر کھولے جائیں
صوبائی و قومی شاہراہوں میں کوئی تخصیص نہ کی جائے
وزیرِ مواصلات کو ان علاقوں کا دورہ کر کے بحالی آپریشن کی ذاتی نگرانی کرنے کا حکم دیا گیا۔
بجلی، پانی و دیگر سہولیات کی جلد بحالی
وزیرِ اعظم نے وزیرِ بجلی کو متاثرہ علاقوں کا فوری دورہ کرنے اور:
بجلی کا نظام بحال کرنے
ٹرانسفارمرز، گرڈ اسٹیشنز کی مرمت
لوڈ مینجمنٹ اور بیک اپ سسٹمز کی فوری فراہمی پر زور دیا۔
ریلیف کیمپس اور امدادی سامان کی تقسیم
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق:
اب تک 456 ریلیف کیمپس قائم کیے جا چکے
400 سے زائد ریسکیو آپریشنز مکمل کیے گئے
متاثرین کو راشن، خیمے، ادویات، کپڑے، صاف پانی سمیت بنیادی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں
متاثرہ علاقوں میں ٹرکوں کے ذریعے امدادی اشیاء کی ترسیل جاری ہے
وزیرِ اعظم نے ہدایت دی کہ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع کو امدادی سامان پہلے مرحلے میں فراہم کیا جائے۔
نقصانات کا تخمینہ اور مون سون کی صورتحال
این ڈی ایم اے کے مطابق اب تک 126 ملین روپے سے زائد کے نقصانات ہو چکے ہیں (سرکاری و نجی املاک)
اب تک 6 مون سون اسپیل گزر چکے، جبکہ مزید 2 اسپیل ستمبر کے آخر تک متوقع ہیں
مسلسل بارشوں کے باعث مزید نقصانات کا خدشہ ہے
اجلاس میں اعلیٰ سطح شرکت
اجلاس میں شریک اہم شخصیات:
وفاقی وزیر خواجہ آصف، احسن اقبال، احد چیمہ، سردار اویس لغاری، ڈاکٹر مصدق ملک
وزیرِ امور کشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام، سردار محمد یوسف، میاں محمد معین وٹو
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک، وزیرِ اعظم کے چیف کوآرڈینیٹر مشرف زیدی
متعلقہ سیکریٹریز، چیئرمین این ایچ اے اور دیگر اعلیٰ حکام نے صورتحال پر رپورٹس پیش کیں۔
سیلاب کے شہداء کے لیے دعا
اجلاس کے آخر میں وزیرِ اعظم اور تمام شرکاء نے:
سیلاب میں جاں بحق افراد کی بلندی درجات
زخمیوں کی جلد صحتیابی
اور متاثرہ خاندانوں کے صبر و حوصلے کے لیے خصوصی دعا کی۔
نتیجہ: ریاست اور حکومت عوام کے شانہ بشانہ
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ ریاست تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ہر متاثرہ فرد کی داد رسی کی جائے گی اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا جب تک متاثرہ علاقے مکمل بحال نہ ہو جائیں۔