
مسجد وزیر خان کی سیڑھیوں پر ماڈل کے فوٹو شوٹ پر تنازع: ماڈل عزبیہ اور فوٹوگرافر کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج
ماڈل عزبیہ نے ویڈیو گرافر زمین کی مدد سے یہ ویڈیو خفیہ طور پر صبح سویرے ریکارڈ کرائی، جس کے لیے محکمہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی سے اجازت نہیں لی گئی
سید عاطف ندیم-پاکستان: لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان ایک بار پھر تنازع کا مرکز بن گئی ہے، جہاں ماڈل عزبیہ اور فوٹوگرافر زمین کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ ماڈل نے نامناسب لباس میں مسجد کے احاطے اور سیڑھیوں پر ویڈیو شوٹ کرایا، جس سے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور مسجد کا تقدس پامال ہوا۔
واقعے کی تفصیلات: سوشل میڈیا پر ویڈیو سے بھڑکی عوامی ناراضی
پیر کے روز لاہور کے تھانہ اکبری گیٹ میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، یہ واقعہ 13 اگست کو پیش آیا جب ماڈل عزبیہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں وہ مسجد وزیر خان کے باہر موجود سیڑھیوں پر نامناسب لباس میں ماڈلنگ کر رہی تھیں۔
ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ:
"ماڈل عزبیہ نے ویڈیو گرافر زمین کی مدد سے یہ ویڈیو خفیہ طور پر صبح سویرے ریکارڈ کرائی، جس کے لیے محکمہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی سے اجازت نہیں لی گئی۔ اس عمل سے مسجد کا تقدس مجروح ہوا اور محکمے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔”
قانونی کارروائی: توہینِ مذہب کی دفعہ 295 کے تحت مقدمہ
ایف آئی آر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 کے تحت درج کی گئی ہے، جو مذہبی مقامات کے تقدس کی پامالی سے متعلق ہے۔ اگر جرم ثابت ہو جائے تو اس دفعہ کے تحت سخت سزا دی جا سکتی ہے، جس میں قید اور جرمانہ دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔
محکمہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا:
"ویڈیو کلپ منظرِ عام پر آنے کے فوری بعد افسرانِ بالا نے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کے احکامات جاری کیے۔”
"کسی بھی فرد کو مسجد جیسے مقدس مقام پر اس نوعیت کی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سیکورٹی اور نگرانی کو مزید سخت کیا جائے گا۔”
ماضی کا پس منظر: صبا قمر اور بلال سعید کا مقدمہ یادگار مثال
یہ پہلا موقع نہیں جب مسجد وزیر خان متنازع فوٹو یا ویڈیو شوٹس کا مرکز بنی ہو۔ اگست 2020 میں بھی مشہور اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید پر اسی تھانے میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مسجد کے اندر "ڈانس/گانے” کا منظر عکس بند کرایا۔
تاہم دونوں فنکاروں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ مسجد کے اندر رقص کا کوئی منظر فلمایا نہیں گیا اور گانے کی شوٹنگ کے لیے باقاعدہ محکمہ اوقاف سے اجازت لی گئی تھی۔
بعدازاں، 9 مئی 2022 کو عدالت نے صبا قمر اور بلال سعید کو تمام الزامات سے بری کر دیا تھا، جسے عدالتی انصاف کا ایک اہم فیصلہ سمجھا گیا۔
سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل: غم و غصہ اور مطالبہ برائے احتساب
واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد صارفین کی بڑی تعداد نے ماڈل اور فوٹوگرافر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بعض صارفین نے کہا کہ مسجد جیسے مقدس مقام پر ماڈلنگ یا کمرشل ویڈیو شوٹنگ اسلامی اقدار کی توہین ہے۔
کچھ آوازیں اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں بھی اٹھیں، تاہم اکثریت نے ویڈیو کو غیر اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے نامناسب قرار دیا۔
ماڈل اور فوٹوگرافر کا موقف تاحال منظر عام پر نہیں آیا
اس خبر کے فائل ہونے تک نہ ماڈل عزبیہ اور نہ ہی فوٹوگرافر زمین کی جانب سے کوئی سرکاری بیان یا وضاحت سامنے آئی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان افراد نے واقعی اجازت کے بغیر مسجد کے احاطے میں فوٹو یا ویڈیو شوٹ کیا ہے، تو انہیں قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ریاستی اداروں کی کارروائی اور مستقبل کا لائحہ عمل
محکمہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے اس واقعے کو مثالی کیس قرار دیا ہے اور آئندہ ایسی حرکات کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے کا اعلان کیا ہے۔ مسجدوں اور دیگر مذہبی مقامات پر سی سی ٹی وی نگرانی کو بہتر بنانے، اور ویڈیو شوٹنگ کے قواعد و ضوابط کو سخت کرنے کی بھی تجویز زیرِ غور ہے۔