
اسلام آباد، خصوصی نمائندہ:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہوں پر غیرقانونی قبضے، نسل در نسل الاٹمنٹ، اور انتظامی کمزوریوں کا ایک طویل سلسلہ سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران 509 سرکاری فلیٹس اور مکانات قابضین سے واگزار کروائے ہیں۔ یہ انکشاف ایک جامع حکومتی سروے کے بعد سامنے آیا، جسے اسٹیٹ آفس اور انٹیلی جنس بیورو نے مشترکہ طور پر اپریل 2024 میں شروع کیا تھا۔
سروے کی تفصیلات: کاغذی نہیں، عملی قبضے
اس سروے کے دوران معلوم ہوا کہ یہ محض فرضی یا کاغذی الاٹمنٹس نہیں تھیں بلکہ ان گھروں میں غیر مستحق افراد برسوں سے مقیم تھے۔ درحقیقت، کئی ایسے کیسز سامنے آئے جہاں ملازمین اپنی مدتِ الاٹمنٹ مکمل ہونے کے بعد بھی رہائش پذیر تھے یا مکمل طور پر غیر مجاز افراد ان گھروں پر قابض تھے۔
ان میں ہر قسم کے مکانات شامل تھے، جن میں اعلیٰ درجے کی رہائش گاہیں جیسے منسٹر انکلیو اور گورنمنٹ آفیشل ریزیڈنس (GOR) بھی شامل ہیں۔
کیٹیگری کے لحاظ سے واگزار شدہ مکانات:
173 اے ٹائپ فلیٹس
113 بی ٹائپ فلیٹس
120 ڈی ٹائپ مکانات
70 ای اور ایف ٹائپ مکانات
1 مکان منسٹر انکلیو
1 مکان GOR میں
کون لوگ قابض تھے؟ نچلے گریڈ سے اعلیٰ افسران تک سب شامل
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ نچلے گریڈ کے ملازمین نے اٹھایا۔ محدود تنخواہوں اور وسائل کے باوجود ان افراد نے نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر قیمتی سرکاری رہائشیں حاصل کیں۔
قبضہ کرنے والے ملازمین کی فہرست:
45+ لوئر ڈویژن کلرکس (LDC)
30+ اپر ڈویژن کلرکس (UDC)
25+ ڈرائیورز
20+ نائب قاصد
دیگر شامل: اسسٹنٹس، سٹینوگرافرز، انسپکٹرز، اور چند ڈائریکٹرز، جوائنٹ سیکریٹریز
محکمے بھی شامل: سب سے زیادہ کیسز تعلیم اور تعمیرات کے شعبوں سے
یہ مسئلہ صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ درجنوں وفاقی محکمے اس میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث پائے گئے۔ سب سے زیادہ غیرقانونی قابضین فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن سے تھے، جن کی تعداد 60 سے زیادہ تھی۔
کچھ نمایاں محکمے:
فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن: 60+ ملازمین
پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (PWD): 50+
وزارت قانون و انصاف: 15
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR): 10
انٹیلیجنس بیورو (IB): 10
وزارت داخلہ، وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس، سینیٹ سیکریٹریٹ: درجنوں کیسز
قبضے کے بڑے مراکز: جی-9، جی-10، جی-11 سیریز سرفہرست
غیرقانونی قبضوں کا سب سے بڑا مرکز جی سیریز کے سیکٹرز بنے، جن میں جی-9، جی-10 اور جی-11 میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے۔ ایف سیریز میں (ایف-6، ایف-7، ایف-8) کیسز کم تھے، لیکن ان میں قبضے زیادہ اعلیٰ درجے کے مکانات پر کیے گئے تھے۔
حکومتی اقدامات: فوری انسپکشن، نگرانی سخت
وزارت ہاؤسنگ اور اسٹیٹ آفس نے غیرقانونی قبضے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں:
فیلڈ انسپیکشن کا باقاعدہ نظام قائم
الاٹمنٹس کی فوری منسوخی اگر کسی بھی قسم کا غیرقانونی قبضہ یا جعلسازی پکڑی جائے
اہل امیدواروں کو دوبارہ الاٹمنٹ کا فوری عمل
انٹیلیجنس بیورو کا تعاون مزید بڑھایا گیا تاکہ آئندہ ایسی صورتحال سے بروقت نمٹا جا سکے
وزارت ہاؤسنگ کے ایک سینئر افسر نے کہا:
"ہزاروں مستحق ملازمین برسوں سے انتظار کی فہرست میں ہیں، جبکہ کچھ افراد نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر ناجائز طریقے سے سرکاری مکانات پر قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ریاستی وسائل کا غلط استعمال بھی ہے۔”
اصل مسئلہ: نظامی اصلاحات یا محض عارضی کارروائی؟
اگرچہ 509 مکانات خالی کروا لینا ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس تعداد کی وسعت ظاہر کرتی ہے کہ یہ مسئلہ چند افراد کا نہیں بلکہ ایک منظم، گہرا اور دہائیوں پر محیط نظامی بگاڑ ہے۔
ماہرین کے مطابق، جب تک ڈیجیٹل الاٹمنٹ سسٹم، شفافیت، اور آڈٹ کا مستقل طریقہ کار نافذ نہیں ہوتا، یہ مسئلہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔
نتیجہ: پالیسی میں مستقل اصلاحات ناگزیر
یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سرکاری رہائش گاہوں کا نظام محض فہرستوں اور الاٹمنٹ کے کاغذی کھیل تک محدود رہا ہے۔ شفافیت، نگرانی، اور احتساب کا مربوط نظام ہی اس طویل المدتی مسئلے کا حل ہے۔