بین الاقوامیاہم خبریں

امریکہ میں 2025ء کے دوران 6 ہزار سے زائد طلبہ کے ویزے منسوخ، فلسطین کی حمایت اور دہشت گردی سے روابط اہم وجوہات

یہ پیش رفت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے تسلسل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے

واشنگٹن ڈی سی — امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز ڈیجیٹل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارتِ خارجہ نے سال 2025 کے دوران چھ ہزار سے زائد غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے ہیں۔ ان ویزوں کی منسوخی کی وجوہات میں قیام کی قانونی مدت سے تجاوز، ملکی قوانین کی خلاف ورزی، اور دہشت گرد تنظیموں سے روابط یا حمایت شامل ہے۔

یہ پیش رفت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے تسلسل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جن کا مقصد امریکہ میں موجود غیر ملکی افراد کی نگرانی کو مؤثر بنانا اور سیکیورٹی خدشات کو کم کرنا تھا۔

قوانین کی خلاف ورزی، جرم، اور دہشت گردی: ویزہ منسوخی کی بڑی وجوہات

وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق، "تمام ویزے انہی طلبہ کے منسوخ کیے گئے جنہوں نے امریکہ میں قیام کے دوران قانون کی خلاف ورزی کی، یا دہشت گردی کی حمایت جیسے الزامات میں ملوث پائے گئے۔”

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریباً:

  • 4000 ویزے ان طلبہ کے منسوخ ہوئے جو تشدد، ڈکیتی، یا نشے کی حالت میں گاڑی چلانے جیسے جرائم میں ملوث پائے گئے؛

  • 800 طلبہ کو تشدد کے الزامات پر گرفتار کیا گیا؛

  • جب کہ 200 سے 300 ویزے ان افراد کے منسوخ کیے گئے جن پر دہشت گرد تنظیم حماس کے لیے فنڈز جمع کرنے کا الزام ہے۔

یہ تمام جرائم امریکی قومی سلامتی کے تناظر میں سنگین نوعیت کے سمجھے جاتے ہیں۔

فلسطین کی حمایت پر ویزہ جانچ پڑتال میں سختی

وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے مئی 2025 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی حکومت ان غیر ملکی طلبہ کے ویزوں کا از سرِ نو جائزہ لے رہی ہے جو امریکہ میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ان مظاہروں کے بعد بہت سے طلبہ کو اضافی جانچ پڑتال اور انٹرویوز کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ایگزیکٹو آرڈرز: سخت امیگریشن پالیسیوں کی بنیاد

ان ویزہ منسوخیوں کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2025 میں جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز سے جوڑا جا رہا ہے، جن کے تحت:

  • وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، اٹارنی جنرل، اور انٹیلیجنس اداروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ غیر ملکی شہریوں کی سخت جانچ پڑتال کریں؛

  • خاص طور پر ان ممالک کے شہریوں پر توجہ دی جائے جنہیں سیکیورٹی کے لحاظ سے خطرناک تصور کیا جاتا ہے؛

  • اور یہودی مخالف جذبات پھیلانے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے یا انہیں ملک بدر کیا جائے۔

یہ حکم نامے امریکی حکومت کی اس پالیسی کا مظہر تھے جس کا مقصد امریکہ کو "ہر ممکن سیکیورٹی خطرے سے محفوظ” رکھنا بتایا گیا۔

سوشل میڈیا کی نگرانی اور ویزہ اجرا کا نیا نظام

وزارتِ خارجہ نے ویزہ اجرا کے عمل میں نئی پالیسیاں نافذ کی ہیں، جن میں:

  • سماجی رابطوں کے اکاؤنٹس کی سخت جانچ پڑتال؛

  • انٹرویوز کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ،

  • ویزہ درخواست دہندگان کی مکمل ڈیجیٹل سرگرمیوں کا جائزہ شامل ہے۔

ویزا منسوخی کے اعداد و شمار: ٹرمپ بمقابلہ بائیڈن دور

فوکس نیوز کے مطابق، 2025 تک مجموعی طور پر 40 ہزار ویزے منسوخ کیے گئے۔ ان میں سے:

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں 40 ہزار؛

  • جب کہ صدر جو بائیڈن کے دور میں محض 16 ہزار ویزے منسوخ ہوئے۔

ان اعداد و شمار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں کتنی سختی اختیار کی۔

سیاسی ردِعمل: ریپبلکن حمایت، ڈیموکریٹ مخالفت

ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے 20 مئی کو سینیٹ کی ایک سب کمیٹی میں کہا:

"ہمارے تعلیمی اداروں میں مسائل پیدا کرنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کے لیے مزید اقدامات درکار ہیں۔”

دوسری جانب، ڈیموکریٹ ارکان نے اس پالیسی کو بنیادی انسانی آزادیوں پر حملہ قرار دیا۔ سینیٹر جیف مرکلی نے کہا:

"بغیر قانونی طریقہ کار کے ویزہ منسوخی آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہی طریقہ کار حکومت کو لوگوں کی زندگی یا آزادی سلب کرنے سے روکتا ہے۔”

تجزیہ: تعلیم یا سیکیورٹی؟ ایک مشکل توازن

امریکہ میں طلبہ ویزہ مخصوص مدت کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، جب کہ گرین کارڈ مستقل قیام اور روزگار کا حق فراہم کرتا ہے۔ موجودہ پالیسیوں سے بظاہر لگتا ہے کہ امریکی حکومت، خصوصاً ریپبلکن قیادت، سیکیورٹی کو تعلیم پر فوقیت دے رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کی یہ پالیسی ایک سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد اندرونی اور بیرونی سطح پر کچھ مخصوص نظریات کو دبانا ہے۔


نتیجہ: ویزہ پالیسیوں میں سختی اور انسانی حقوق کے تقاضے

امریکی ویزہ پالیسی میں حالیہ سختیاں بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکی ہیں۔ ایک طرف قومی سلامتی کے نام پر غیر ملکی طلبہ کی جانچ پڑتال سخت کر دی گئی ہے، تو دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈیموکریٹ رہنما ان اقدامات کو بنیادی انسانی حقوق اور قانونی ضابطوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ پالیسیز امریکہ کی عالمی تعلیمی ساکھ اور بین الاقوامی تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوں گی، یہ ایک اہم سوال ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button