
اسلام آباد میں افغان طالبان مخالف رہنماؤں کا غیر معمولی ڈائیلاگ 25 اگست کو منعقد ہوگا — منتظمین نے دباؤ ڈالنے کے تاثر کو مسترد کر دیا
"بات چیت کا سلسلہ تو ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ قطر کے اندر بھی تھا، باقی جگہوں پہ بھی تھا۔ اور اگر بات چیت کو آپ دباؤ سمجھتے ہیں، تو یہ ایک افسوسناک بات ہے۔"
اسلام آباد، خصوصی رپورٹ: پاکستان کی دارالحکومت اسلام آباد خطے کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت کی میزبانی کے لیے تیار ہے، جہاں افغان طالبان مخالف رہنماؤں اور کارکنوں پر مشتمل ایک غیر معمولی اور اہم ڈائیلاگ 25 اگست کو منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس اجلاس کا اہتمام معروف تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا اسٹریٹیجک سٹیبیلٹی انسٹیٹیوٹ یونیورسٹی (SASSI) کی جانب سے کیا جا رہا ہے، جس میں افغانستان کی ممتاز سیاسی، سماجی، اور انسانی حقوق کی شخصیات شرکت کریں گی۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ اس ڈائیلاگ کا مقصد افغانستان کے سیاسی منظرنامے پر تعمیری گفتگو کا آغاز کرنا ہے اور یہ کسی بھی طور کابل میں موجود طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے یا اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں ہے۔
شرکت کرنے والی اہم شخصیات
اجلاس میں افغانستان کی معروف خواتین رہنما اور سابق رکنِ پارلیمان فوزیہ کوفی، سابق نائب وزیر خارجہ نصیر احمد اندیشہ، سابق سفارتکار، جلا وطن سیاسی رہنما، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے نمائندگان شرکت کریں گے۔ یہ تمام شخصیات افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یا تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر چکی ہیں یا عالمی پلیٹ فارمز پر طالبان کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
یہ اجلاس افغانستان کے ان طبقات کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرے گا جو طالبان کے تسلط کے بعد ملک میں اپنے کردار سے محروم کر دیے گئے تھے۔
"یہ دباؤ نہیں، مکالمہ ہے” — منتظمین کا مؤقف
SASSI یونیورسٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر ماریہ سلطان نے اس ڈائیلاگ کی نوعیت اور مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ،
"بات چیت کا سلسلہ تو ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ قطر کے اندر بھی تھا، باقی جگہوں پہ بھی تھا۔ اور اگر بات چیت کو آپ دباؤ سمجھتے ہیں، تو یہ ایک افسوسناک بات ہے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت نہیں ہو رہا بلکہ اس کا بنیادی مقصد افغان عوام کے متنوع نظریات اور خیالات کو یکجا کرنا اور ایک پُرامن، جامع سیاسی مستقبل کی تلاش میں مکالمے کی بنیاد رکھنا ہے۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان کا مزید کہنا تھا کہ اس اجلاس میں طالبان حکومت کے کسی نمائندے کو دعوت نہیں دی گئی، تاہم یہ پلیٹ فارم افغانستان کے تمام طبقات کی نمائندگی کی کوشش کرے گا، تاکہ مستقبل کے لیے کوئی متوازن اور قابلِ قبول حکمرانی کا تصور ابھارا جا سکے۔
علاقائی اور عالمی اہمیت
یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب افغانستان کی اندرونی صورتِ حال عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت کو اب تک کسی بھی بڑی طاقت یا بین الاقوامی ادارے نے مکمل سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب، خواتین کی تعلیم پر پابندیاں، سیاسی آزادیوں پر قدغن، اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل عالمی سطح پر تنقید کی زد میں ہیں۔
ایسے میں اسلام آباد میں اس نوعیت کے اجلاس کا انعقاد نہ صرف علاقائی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ افغان جلاوطن رہنماؤں کی سیاسی فعالیت اور بین الاقوامی منظرنامے پر ان کی موجودگی کو بھی تقویت دیتا ہے۔
پاکستان کا کردار اور پوزیشن
اگرچہ پاکستان کی حکومت نے تاحال اس اجلاس پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، تاہم SASSI جیسے تحقیقی ادارے کی میزبانی میں اس کانفرنس کا انعقاد یہ اشارہ ضرور دیتا ہے کہ پاکستان میں افغان مسئلے پر علمی و سیاسی بحث و مباحثے کے لیے ایک کھلا ماحول موجود ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر طالبان مخالف رہنماؤں کے اس اجتماع سے کابل میں طالبان قیادت ممکنہ طور پر تشویش کا شکار ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر اجلاس میں ان کی پالیسیوں پر براہِ راست تنقید کی گئی یا متبادل حکومت سازی کے ماڈلز پر گفتگو ہوئی۔
مستقبل کی سمت اور ممکنہ اثرات
اس ڈائیلاگ کے بعد افغانستان کی داخلی سیاست میں کیا لائحہ عمل اپنایا جائے گا؟ کیا یہ اجلاس صرف خیالات کے تبادلے تک محدود رہے گا یا اس کے نتیجے میں کوئی سیاسی تحریک یا متفقہ منشور سامنے آئے گا؟ ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ اسلام آباد میں 25 اگست کو ہونے والا یہ اجلاس افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ایک اہم علامتی اور عملی پیش رفت ہے — ایک ایسا اقدام جو طالبان کی یک طرفہ حکمرانی کے متبادل بیانیے کو عالمی سطح پر سامنے لانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
اختتامیہ:
اسلام آباد میں منعقد ہونے والا یہ اجلاس افغانستان کے ان طبقات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جن کی آواز گزشتہ چند سالوں میں دبا دی گئی تھی۔ اگرچہ منتظمین نے اسے غیر سیاسی اور دباؤ سے پاک مکالمہ قرار دیا ہے، لیکن اس کے ممکنہ اثرات کابل، اسلام آباد اور عالمی دارالحکومتوں میں ضرور محسوس کیے جائیں گے۔