
جرمنی میں شامی ملیشیاؤں اور خفیہ ایجنسی افسر کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ: یرموک کی محصور تاریخ عدالت میں بے نقاب
اب کوبلنز کی اعلیٰ علاقائی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ ان کے خلاف باضابطہ مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں
برلن / کوبلنز – خصوصی رپورٹ
جرمنی کے وفاقی پراسیکیوٹر آفس نے شام میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین مظالم کے الزامات میں پانچ شامی نژاد فلسطینیوں پر باضابطہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے 2011 سے 2013 کے درمیان دمشق کے مضافاتی علاقے یرموک میں شامی حکومت کے زیرِ سایہ مسلح ملیشیاؤں کے رکن یا خفیہ ادارے کے اہلکار کے طور پر عام شہریوں کو قتل، تشدد اور جبر کا نشانہ بنایا۔
یہ پانچوں افراد جرمنی میں زیرِ حراست ہیں اور اب کوبلنز کی اعلیٰ علاقائی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ ان کے خلاف باضابطہ مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں۔ اگر مقدمہ آگے بڑھا تو یہ ایک اور مثال ہوگی کہ کس طرح یورپ شام میں ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی قانونی دائرہ کار کے تحت کارروائی کر رہا ہے۔
ملزمان کون ہیں؟
پراسیکیوٹرز کے مطابق:
چار ملزمان نے 2012 کے آغاز میں یرموک مہاجر کیمپ میں شامی حکومت کی وفادار ملیشیاؤں میں شمولیت اختیار کی۔
پانچواں ملزم 2011 سے شامی فوج کے خفیہ ادارے کے "فلسطین ڈویژن” میں کام کر رہا تھا اور حکومتی حراستی مراکز میں تشدد میں ملوث رہا۔
تمام ملزمان کی شہریت غیر واضح ہے، تاہم ان کا تعارف "شام میں رہائش پذیر بے وطن فلسطینی” کے طور پر کیا گیا ہے۔
یرموک کی تباہ کن ناکہ بندی اور انسانی بحران
یرموک، جو کہ کبھی شام میں فلسطینیوں کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ تھا، 2012 سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق ملزمان کی ملیشیائیں شامی حکومت کی ہدایت پر کام کر رہی تھیں اور انہوں نے 2013 کے وسط میں یرموک کی مکمل ناکہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ ناکہ بندی:
علاقے میں خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کا باعث بنی،
ہزاروں شہری قحط زدہ حالات کا شکار ہوئے،
بین الاقوامی اداروں نے یرموک کو "محصور جہنم” قرار دیا۔
فائرنگ، اغوا اور تشدد: الزام کی سنگینی
جرمن حکام کے مطابق ان ملزمان نے:
13 جولائی 2012 کو یرموک میں ایک پرامن مظاہرے پر براہ راست فائرنگ کی، جس میں کم از کم 6 افراد ہلاک ہوئے۔
شہریوں کو چیک پوسٹوں پر روکا، بندوقوں کے بٹ سے مارا،
کئی افراد کو اغوا کرکے شامی خفیہ اداروں کے حوالے کیا،
تشدد، غیر انسانی حراست، اور حراستی قتل میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث رہے۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی قانونی تعریف کے تحت لایا گیا ہے۔
جرمنی کا ’عالمی دائرہ اختیار‘ اور عدالتی پیش رفت
یہ کیس بین الاقوامی قوانین کے تحت جرمنی کے ’عالمی دائرہ اختیار‘ (Universal Jurisdiction) کے اصول کے تحت چلایا جا رہا ہے، جس کے مطابق ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جنہوں نے دنیا کے کسی بھی حصے میں انسانیت کے خلاف جرائم کیے ہوں، چاہے وہ جرمنی کے شہری نہ بھی ہوں۔
اسی عدالت نے اس سے قبل 2022 میں شامی انٹیلیجنس کے ایک سابق افسر، انور رسلان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
مہاجرین، انصاف اور تاریخ کا حساب
یہ مقدمہ صرف پانچ افراد کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ شام میں برسوں سے جاری تشدد، جبری گمشدگیوں، اور حکومت کی پشت پناہی میں کام کرنے والی قوتوں کے خلاف ایک علامتی عدالتی قدم ہے۔
یرموک کی محصور یادیں آج جرمن عدالت میں زندہ ہو رہی ہیں، اور شاید پہلی بار متاثرین کو عالمی سطح پر انصاف کی امید بندھی ہے۔
اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور متاثرین کا ردِ عمل
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں اور مہاجرین کے لیے کام کرنے والے گروپس نے جرمن عدلیہ کے اس اقدام کو سراہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ مقدمہ شام میں ظلم کے متاثرین کے لیے ایک "نایاب اور اہم امید” ہے۔
انصاف کی تلاش جاری ہے
شام میں جاری خانہ جنگی نے لاکھوں جانیں لی ہیں اور ہزاروں لاپتا افراد کے خاندان آج بھی جواب کے منتظر ہیں۔ جرمنی میں زیرِ سماعت یہ مقدمہ شاید ایک چھوٹا قدم ہو، لیکن ایک واضح پیغام ہے:
جرائم چاہے کہیں بھی ہوں، ظالموں کا پیچھا کیا جائے گا۔