
رہائی بھی ملے گی کیا ؟…..ناصف اعوان
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ کل تک تو انہیں یہ لگ نہیں رہا تھا کہ کوئی انہونی ہو سکتی ہے
بانی پی ٹی آئی کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے نو مئی کے مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے مگر کیسز ختم نہیں ہوئے لہذا پی ٹی آئی کے کارکنان کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے کہ صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جس کیس میں ضمانت ملتی ہے وہ کمزور سمجھا جاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس میں بریت بھی یقینی ہوتی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا خان کے ساتھ کوئی ڈیل ہو چکی ہے یا عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کے لئے کہ یہاں کا نظام انصاف میرٹ پر مبنی فیصلے کرتا ہے یعنی یہ جو سمجھ لیا گیا ہے کہ ملک میں قانون کی بالا دستی نہیں وہ غلط ہے ۔ جو بھی ہے پی ٹی آئی کو یقیناً بہت بڑا ریلیف ملا ہے اور نو مئی کا بیانیہ اب حکومت کے لئے طعنہ نہیں رہا لہذا کہا جا رہا ہے کہ وہ کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرے گی مگر بعض اہل دانش کے مطابق سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سیٹ اپ اسی طرح رہے گا کیونکہ کوئی بھی خان کی رہائی کو اپنے لئے مناسب و سود مند نہیں سمجھتا لہذا اسے کسی اور مقدمہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ شاید اس حوالے سے غور بھی کیا جارہا ہو ۔
عطا تارڑ نے تو واضح طور سے کہہ دیا ہے کہ ان کی رہائی ممکن نہیں ؟
انہیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی حالات اب روایتی نہیں رہے بدل رہے ہیں ۔عوام کی غالب اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں جمہوریت پر یقین رکھنے والے ممالک اور ان کے شہری پاکستان میں بھی جمہوری نظام کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں لہذا ضمانتوں کو اسی تناظر میں دیکھا جائے ۔
خیر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ کل تک تو انہیں یہ لگ نہیں رہا تھا کہ کوئی انہونی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک میدانِ سیاست میں دُور دُور تک کسی سائیکلون کے چلنےکا کوئی امکان نہیں تھا وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ یہاں کی سیاست ہو یا اقتدار ان سے متعلق قطعی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ سیاستدان و حکمران کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں اور اہل اختیار کچھ اور لہذا وہ چاہ رہے ہوں گے کہ طاقت کا توازن بگڑنے نہ پائے مگر حکمرانوں کو شاید یہ وارے میں نہیں ہوگا وہ تو طویل عمر کے ساتھ اقتدار بھی طویل چاہتے ہوں گے تاکہ زیادہ وقت ملنے پر وہ اپنی کمیاں کوتاہیاں دُور کر سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں نئے نئے پروگرام سامنے لا رہی ہیں طرح طرح کی حکمت عملیاں اختیار کر رہی ہیں مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح وہ کھوئی ہوئی مقبولیت واپس لے آئیں مگر ہم پہلے بھی اپنے کسی کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے عوام کی اکثریت عمران خان کو اپنا لیڈر ہی نہیں مرشد تسلیم کر چکی ہے
اس صورت میں حکومت کی کارکردگی بہت بہتر بھی ہو جاتی ہے تو بھی وہ دلوں میں آئی دراڑوں کو نہیں جوڑ سکے گی وگرنہ جب حکومت چھوٹے چھوٹے ریلیف دے رہی ہے تو اس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کافی کمی آجانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا وہ جوں کی توں موجود ہے لہذا عین ممکن ہے اہل اختیار نے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ اب ملک میں پائے جانے والے سیاسی تناؤ کو ختم نہیں تو کم کیا جائے تا کہ عالمی سطح پر جمہوری ہونے کا تاثر ابھر سکے!
بہر حال عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اسے قابل احترام سمجھنا لازم ہو چکا ہے اسی لئےمنظرِ سیاست کچھ کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دینے لگا ہے مگر ہمارا تجزیہ ہے کہ ابھی رہائی مشکل ہو گی ”فریقین “ آپس میں مل بیٹھیں گے کیونکہ خان کی رہائی کوئی بھی نہیں چاہتا حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بھی نہیں چاہتی کہ وہ باہر آئے وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کا کام خوب چل رہا ہے ان کی موجیں لگی ہوئی ہیں اور ان کی بڑی ٹہور بنی ہوئی ہے لہذا بانی پی ٹی آئی جلد رہا نہیں ہو سکتے مگر یہ ہے کہ ان کے لئے کچھ نرمی ضرور پیدا ہو سکتی ہے کہ ان کے چاہنے والے تھوڑی آسانی سےان سے ملاقات کر سکیں گے یوں ان کے کارکنوں میں جو جزبات کا طوفان امڈا ہوا ہے وہ تھم سکے گا کیونکہ ملک کی معاشی حالت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ یہاں شور شرابا ہو اور باہر کی کمپنیاں سرمایہ کاری سے ہچکچائیں اس کے بجائے وہ دوسرے ترقی پزیر ملکوں کا رخ کریں ۔ بہت ہو چکا سیاسی کھیل تماشا ‘ اب یہ ختم ہو جانا چاہیے تاکہ عام زندگی میں ایک ٹھہراؤ آسکے ۔اس وقت جو کشیدگی پائی جاتی ہے اس سے سماجی ڈھانچہ بے حد متاثر ہے جدھر دیکھو چھینا جھپٹی ہے ایک دوسرے کو دھوکا دیا جا رہا ہے اپنی بقا کے لئے دوسروں کے متاثر ہونے کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ بس یہی بات ذہن پر سوار ہے کہ جیسے تیسے مال و زر اکٹھے کرو ۔ اس طرح کیسے ملک آگے بڑھ سکتا ہے لہذا عرض ہے کہ اقتدار کے حصول میں ملک کے مفادات کو بی پیش نظر رکھا جائے عوام کے مسائل کو ترجیحاً حل کرنے کی جانب بڑھا جائے وہ اتنے گمبھیر ہو چکے ہیں کہ اب انقلاب کا تقاضا کر رہے ہیں سطحی اور وقتی حل سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا اور پھر قرضے لے کر کب تک نظام معیشت کی گاڑی کو رواں رکھا جا سکتا ہے لہذا ایک بڑی سیاسی جماعت کو ہمراہ کرکے ملک کی دیرینہ مشکلات پر سوچ بچار کرکے قابو پانے کی کوشش کی جائے۔ شاید ایسی سوچ کہیں پیدا ہو چکی ہے اسی لئے نئی صبح کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں ۔ جاوید خیالوی کے مطابق جب تک دوسرے کیسز بارے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی کارکنان پی ٹی آئی کو بغلیں نہیں بنانا چاہیے کیونکہ وہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں اور یہ تاثر اب گہرا ہو چکا ہے کہ اگر خان رہا ہوگیا تو اس نے ستم ڈھانے والوں کو چھوڑنا نہیں لہذا انہیں ریلیف تو مل سکتے ہیں رہائی فی الحال نہیں ہاں رہائی اس صورت میں ممکن ہے جب وہ کثیر تعداد میں سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے لہذا کہا جا سکتا ہے ”ہنوز دلی دُور است “
جاوید خیالوی کی بات بڑی حد تک ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ معمولی تبدیلی موسمی ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے لہذا جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ جانے والے ہیں اور ”وہ“ آنے والے ہیں درست نہیں سب موجود ہیں اور رہیں گے کب تک ‘ اس کا کوئی علم نہیں لہذا چلتے جائیے فریاد کرتے جائیے کسی روز یقیناَ سنی جائے گی۔