
ملیر جیل سے 225 قیدیوں کے فرار کی انکوائری مکمل: سنگین غفلت، ناقص سیکیورٹی، اور بدانتظامی کی تصدیق
زلزلے جیسی قدرتی آفت کے باوجود جیل حکام کے پاس نہ کوئی پیشگی تیاری تھی اور نہ ہی کوئی مؤثر SOPs (معیاری عملی طریقہ کار) نافذ تھے
کراچی (خصوصی رپورٹ) — کراچی کی بدنام زمانہ ملیر جیل سے 225 قیدیوں کے فرار کے سنسنی خیز واقعے کی اعلیٰ سطحی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے، جس میں سنگین غفلت، بدانتظامی اور سیکیورٹی انتظامات میں شدید کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انکوائری رپورٹ میں جیل سپرنٹنڈنٹ سمیت اعلیٰ افسران کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
واقعہ جون 2025 میں اُس وقت پیش آیا تھا جب کراچی میں آنے والے زلزلے کے بعد جیل حکام نے حفاظتی اقدامات کے تحت قیدیوں کو بیرکوں سے نکال کر کھلے میدان میں منتقل کیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں نے شدید ہنگامہ آرائی شروع کردی، پولیس اہلکاروں پر حملے کیے، اور ماڑی گیٹ کو توڑ کر جیل سے فرار ہو گئے۔ ابتدائی طور پر 225 قیدی فرار ہوئے، جن میں سے 78 کو دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔ فرار کی کوشش کے دوران ایک قیدی ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔
تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، ملیر جیل میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی فعال نظام موجود نہیں تھا۔ زلزلے جیسی قدرتی آفت کے باوجود جیل حکام کے پاس نہ کوئی پیشگی تیاری تھی اور نہ ہی کوئی مؤثر SOPs (معیاری عملی طریقہ کار) نافذ تھے۔ نتیجتاً، معمولی زلزلے نے ایک سنگین سیکیورٹی بحران کو جنم دیا۔
رپورٹ میں خاص طور پر سپرنٹنڈنٹ ارشد حسین شاہ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات، اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کو ان کے فرائض میں غفلت برتنے پر براہِ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے ان افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ بعض افسران پر فوجداری مقدمات بھی درج کیے جائیں۔
وائس آف جرمنی کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا انکشافات ہوئے؟
بین الاقوامی نشریاتی ادارے "وائس آف جرمنی” نے اپنی علیحدہ تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے کی مزید گہرائی سے جانچ کی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ جیل کا سیکیورٹی انفراسٹرکچر مکمل طور پر ناکارہ تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ:
زلزلے جیسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی پیشگی مشق یا منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔
جیل کے داخلی و خارجی راستوں پر سیکیورٹی انتہائی کمزور تھی۔
قیدیوں کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے درکار تربیت یافتہ اہلکاروں کی شدید کمی تھی۔
اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے یا تو غیر فعال تھے یا ناقص زاویوں پر نصب تھے۔
سرچ آپریشن، گرفتاریوں اور عوامی ردِ عمل
واقعے کے فوری بعد رینجرز، پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے مشترکہ سرچ آپریشن کا آغاز کیا اور جیل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ملیر، لانڈھی، شاہ لطیف ٹاؤن اور کورنگی کے علاقوں میں خصوصی کارروائیاں کی گئیں۔ پولیس نے عوامی مدد حاصل کرنے کے لیے مساجد میں اعلانات کروائے، جس میں شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ مفرور قیدیوں کی نشاندہی کریں۔
عوامی حلقوں میں واقعے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شہریوں نے اس واقعے کو حکومت کی نااہلی قرار دیتے ہوئے جیل نظام میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر داخلہ سندھ کا ردِ عمل
سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے واقعے کے بعد ملیر جیل کا ہنگامی دورہ کیا اور میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ "جیل کی دیواریں نہیں ٹوٹیں، قیدی گیٹ سے نکلے ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ فرار ہونے والے بیشتر قیدی سنگین جرائم میں ملوث نہیں تھے، تاہم جیل حکام کی جانب سے غفلت کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت واقعے میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کرے گی اور جیل کے سیکیورٹی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔
آئندہ کے اقدامات: جیل اصلاحات کا وقت؟
انکوائری رپورٹ کے بعد محکمہ داخلہ سندھ نے اشارہ دیا ہے کہ جیل حکام کے خلاف محکمانہ کارروائی کے ساتھ ساتھ سندھ بھر کی جیلوں کے سیکیورٹی نظام کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے جیل اصلاحات کی اشد ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔
حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ:
SOPs کی تشکیل اور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
جیل اہلکاروں کو ایمرجنسی حالات میں تربیت دی جائے۔
جیل انفراسٹرکچر کو جدید بنایا جائے، بشمول جدید نگرانی کے نظام، بایومیٹرک رسائی اور الارم سسٹمز۔
ہر جیل میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مخصوص یونٹ قائم کیا جائے۔
نتیجہ: ایک وارننگ سسٹم
ملیر جیل کا واقعہ صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ پورے جیل نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ 225 قیدیوں کا فرار کسی ایک افسر کی غفلت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامی ناکامی ہے۔ یہ واقعہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے ایک "وارننگ سسٹم” کے طور پر کام کرنا چاہیے۔