
سید عاطف ندیم-پاکستان خصو صی رپورٹ: موسمیاتی تبدیلی کی ہولناکی نے ایک بار پھر پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے بپھرے ہوئے پانی، بارشوں کے غیر متوقع اور مسلسل سلسلے، اور انتظامی غفلت کے سائے تلے پنجاب اس وقت بدترین سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔ ماہرین موسمیات اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیلاب 1988 کے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
1988 کا سیلاب: تاریخ کی دردناک یاد
پنجاب کی تاریخ میں سن 1988 کا سیلاب ایک المیہ بن کر یاد رکھا جاتا ہے۔ بزرگوں کے مطابق اُس وقت جموں کی تمام تحصیلیں اور دیہات پانی میں ڈوب گئے تھے۔ پانی کا بہاؤ جب سیالکوٹ اور نارووال کے میدانوں تک پہنچا تو وہاں قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ گھروں، فصلوں، جانوروں، یہاں تک کہ انسانی جانوں کو بھی اس پانی نے نگل لیا تھا۔ آج، 37 برس بعد، وہی خوفناک مناظر دوبارہ پلٹتے دکھائی دے رہے ہیں—بلکہ کہیں زیادہ شدت اور بے رحم طاقت کے ساتھ۔
حالیہ سیلاب کی سنگینی: 8 اضلاع میں فوج طلب، زیارت گاہیں بھی زیرِ آب
حالیہ سیلاب نے اب تک پنجاب کے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 8 اضلاع میں ہنگامی صورتحال کے پیشِ نظر فوج طلب کی جا چکی ہے تاکہ ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں معاونت فراہم کی جا سکے۔ کرتاپور صاحب جیسے مقدس مقامات بھی پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ دریا ہوں یا ندی نالے—سبھی اپنی حدیں پار کر چکے ہیں۔ کئی مقامات پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
بارش کی شدت: جموں، سیالکوٹ اور گرد و نواح میں تاریخی ریکارڈ ٹوٹ گئے
موسم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جموں میں صرف چند دنوں میں 300 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جبکہ انہی دنوں سیالکوٹ اور گرد و نواح میں 600 ملی میٹر مسلسل بارش ہوئی۔ زمین پانی سے لبریز، ندی نالے لبالب، اور ڈیمز اپنی گنجائش کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس مسلسل بارش نے نہ صرف زرعی زمینوں کو ناقابلِ کاشت بنایا، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مویشی ہلاک ہوئے، اور سینکڑوں دیہات مکمل یا جزوی طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔
انتظامی غفلت یا مجبوری؟ پنجاب حکومت کی غیرموجودگی پر سوالات
اس سنگین صورتحال کے دوران پنجاب حکومت کی مرکزی قیادت جاپان کے دورے پر رہی، جو عوامی سطح پر شدید تنقید کا باعث بنا۔ اگرچہ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دورہ "اقتصادی شراکت داری” کے لیے تھا، لیکن عوامی حلقوں اور ماہرین کا موقف ہے کہ ایسے نازک وقت میں حکومت کی فوری وطن واپسی ہی ایک ذمہ دارانہ رویہ ہوتا۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
"پنجاب ڈوب رہا ہے، اور ہمارے رہنما سیلفیاں کھنچوا رہے ہیں۔”
اصل خطرہ ابھی باقی ہے: پنجند پر ممکنہ بحران
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اصل پریشانی کا آغاز پنجند کے مقام پر ہو سکتا ہے، جہاں پانچ بڑے دریا—ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم—آپس میں ملتے ہیں۔ اگر ان دریاؤں کے پانی کی سطح ایک ساتھ بلند ہوئی تو جنوبی پنجاب، بہاولپور، رحیم یار خان، مظفر گڑھ، حتیٰ کہ سندھ کے کئی علاقے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ تجربات کے مطابق، پنجند کے مقام پر اگر پانی کا دباؤ کنٹرول سے باہر ہو جائے، تو نہ صرف نشیبی علاقے بلکہ شہر بھی زیرِ آب آ سکتے ہیں، اور انفراسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تباہی کے بعد کیا ہوگا؟
فی الوقت سیلابی ریلوں کا زور جاری ہے، لیکن اصل المیہ اُس وقت کھل کر سامنے آئے گا جب پانی اترے گا۔ تب جا کر فصلوں کی بربادی، گھروں کی تباہی، انسانی جانوں کا نقصان اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کی اصل تعداد سامنے آئے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر جامع پلاننگ، متاثرین کی بحالی، اور مستقبل کے لیے آبی نظم و نسق کی پالیسی نہ بنائی گئی، تو آنے والے برسوں میں ایسی آفات مزید شدید اور معمول کا حصہ بن سکتی ہیں۔
سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں ہوتا، یہ ایک مکمل انسانی المیہ ہوتا ہے۔ یہ حکومت، اداروں اور معاشرے کے اجتماعی امتحان کا وقت ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ سیاست سے بالاتر ہو کر، انسانی خدمت کو ترجیح دی جائے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ لیں، اور سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے مستقل اور مؤثر حکمتِ عملی اپنائیں۔



