اہم خبریںپاکستان

پاکستان کی زراعت نئے دور میں داخل: چین سے تربیت یافتہ ماہرین کی واپسی، سمارٹ ایگریکلچر کا آغاز

پانی کی بچت، فی ایکڑ زیادہ پیداوار، جدید ٹیکنالوجی اور مقامی سائنسی حل کے ذریعے زرعی انقلابی تبدیلی کی راہ ہموار

لاہور (خصوصی نمائندہ) — پاکستان کی زراعت، جو طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، پرانی تکنیکوں اور کم پیداوار جیسے مسائل کا شکار رہی ہے، اب جدید سائنسی خطوط پر استوار ہونے کے سفر پر گامزن ہو چکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے وژن اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی قیادت میں ایک بڑی زرعی تربیتی اسکیم کے تحت چین کی معروف زرعی جامعات سے تربیت حاصل کرنے والے پاکستانی ماہرین کا پہلا بیچ جولائی 2025 میں وطن واپس آ چکا ہے۔ یہ ماہرین اب پاکستان میں سمارٹ زراعت (Smart Agriculture) کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔

زراعت: معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، مگر مسائل سے دوچار

پاکستان میں زرعی شعبہ ملکی معیشت کا 20 فیصد سے زائد اور 40 فیصد سے زیادہ افراد کی روزگار کا ذریعہ ہے۔ اس کے باوجود، فی ایکڑ پیداوار عالمی معیار سے بہت کم ہے:

  • گندم: پاکستان میں اوسط پیداوار 30 من فی ایکڑ، جبکہ چین میں 50 من سے زائد

  • چاول و کپاس: پیداواری صلاحیت کم، پانی کا غیر مؤثر استعمال

  • پانی کا ضیاع: 40 فیصد زرعی پانی ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ جدید آبپاشی نظام مروج نہیں

چین سے سیکھا گیا ماڈل: جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل فارمنگ کا امتزاج

وزارتِ منصوبہ بندی کے مطابق، چین کے تربیتی پروگرام میں شامل پاکستانی ماہرین نے چار اہم شعبوں پر مہارت حاصل کی:

1. سمارٹ فارمنگ اور ڈیجیٹل نگرانی

  • سینسرز، ڈرونز، سیٹلائٹ، کمپیوٹر وژن اور IOT ڈیٹا کی مدد سے فصلوں کی صحت، نمی اور غذائی ضروریات کی حقیقی وقت میں پیمائش

  • کسان موبائل ایپ کے ذریعے خودکار کھاد اور پانی کی ترسیل کا شیڈول مرتب کر سکیں گے

  • پنجاب کے مختلف علاقوں میں پائلٹ پراجیکٹس پر کام جاری

2. معیاری بیج اور موسمیاتی مزاحم اقسام

  • ہائبرڈ نسلوں، بیماریوں سے محفوظ اقسام، اور زیادہ پیداواری بیجوں پر تحقیق

  • یونیورسٹی آف فیصل آباد میں چینی اشتراک سے مشترکہ لیب قائم

3. جدید آبپاشی نظام

  • ڈرپ، سپرنکلر، فَرٹیگیشن، لو ٹنل اور گرین ہاؤس ٹیکنالوجی پر عملی تربیت

  • چین کے ماڈل کے مطابق فی قطرہ زیادہ پیداوار ممکن بنانا

4. مشینی زراعت اور ویلیو چین مینجمنٹ

  • کمبائن ہارویسٹرز، سیڈرز، سبزی ٹرانسپلانٹرز، گریڈنگ/پیکنگ، کولڈ اسٹوریج

  • فصلوں کی بعد از برداشت بہتری اور مارکیٹ میں بہترین قیمت کا حصول

علم کی منتقلی: تربیت سے کھیتوں تک

واپسی پر ان تربیت یافتہ ماہرین کو زرعی بیلٹس، تحقیقاتی اداروں اور جامعات میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ:

  • مقامی کسانوں کو موسمیاتی موافقت پر مبنی کاشتکاری سکھائی جائے

  • ورکشاپس اور پائلٹ پراجیکٹس کے ذریعے ہزاروں کسانوں تک یہ جدید طریقے منتقل ہوں

  • ڈرونز کے ذریعے کیڑوں پر کنٹرول، فصل کی نگرانی اور پانی کا مؤثر استعمال سکھایا جائے

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن پارک: مقامی حل، مقامی پیداوار

حکومت پاکستان اور چین کے مابین ایک نئے منصوبے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے:

  • "بایو ہیلتھی ایگریکلچر لیب” اور "ڈیمونسٹریشن پارک” کا قیام

  • مقامی سائنسی ادارے، نجی شعبہ اور زرعی اسٹارٹ اپس کی شمولیت

  • بیجوں کی کوالٹی، محفوظ زرعی ادویات، اور موسمیاتی ہم آہنگ حل پاکستان میں ہی تیار ہوں گے

سی پیک کا اگلا مرحلہ: زرعی ٹیکنالوجی اور میکانائزیشن کی سرمایہ کاری

اس وسیع تر منصوبے کو سی پیک فیز-2 کا اہم حصہ تصور کیا جا رہا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کا کہنا ہے کہ:

"سی پیک کے اگلے مرحلے میں زراعت، ایگرو پروسیسنگ، اور میکانائزیشن پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔”

ماہرین کی رائے اور زمینی تجربہ

چین سے تربیت یافتہ طالبعلم محمد زاہد کا کہنا ہے:

"چین میں ہر انچ زمین سائنسی اصولوں کے تحت استعمال ہوتی ہے۔ اگر پاکستان میں ڈرپ اریگیشن، گرین ہاؤسز اور مٹی کا تجزیہ کر کے بیج و کھاد کا استعمال کیا جائے تو پانی کی قلت کے باوجود شاندار پیداوار ممکن ہے۔”

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا بیان

وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا:

"پاکستان کی ترقی کا راستہ زراعت سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہمارے نوجوان اگر سائنسی طریقے اپنائیں تو نہ صرف خوراک کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ برآمدات میں بھی زبردست اضافہ کیا جا سکتا ہے۔”


زرعی انقلاب کا آغاز؟

پاکستان کی زراعت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ پرانے طریقوں، پانی کی کمی اور موسمیاتی دباؤ کے باعث زراعت کا مستقبل غیر یقینی ہوتا جا رہا تھا، لیکن چین کے اشتراک سے شروع کیے گئے اس سمارٹ ایگریکلچر پروگرام نے نئی امید جگائی ہے۔

اگر ان سیکھے گئے طریقوں کو عملی میدان میں لاگو کیا گیا، کسانوں کو سہولت دی گئی، اور پالیسی سطح پر اس ماڈل کو اپنایا گیا تو پاکستان زراعت میں خودکفالت ہی نہیں، بلکہ برآمدی میدان میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کر سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button