
پنجاب میں دریائے چناب، راوی اور ستلج میں غیر معمولی سیلابی صورتحال — لاکھوں کیوسک پانی کا بہاؤ، متاثرہ علاقوں سے انخلا، حکومت اور ادارے الرٹ
پی ڈی ایم اے کے مطابق، دریائے چناب کے طغیانی سے متاثر ہونے والے ممکنہ اضلاع میں گجرات، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، چنیوٹ اور جھنگ شامل ہیں۔
لاہور (رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز) — صوبہ پنجاب کے تین بڑے دریاؤں — چناب، راوی اور ستلج — میں اس وقت غیر معمولی اور خطرناک سیلابی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر (NEOC)، قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے (PDMA)، اور حکومت پنجاب کے مطابق کئی مقامات پر دریاؤں میں پانی کا بہاؤ انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے، جس کے باعث متاثرہ علاقوں سے ہزاروں شہریوں کو انخلا کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
دریائے چناب: قادر آباد، خانکی اور تریمو کے مقامات پر خطرناک صورتحال
دریائے چناب میں شدید سیلابی ریلے کی اطلاعات ہیں۔ قادر آباد ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ 9 لاکھ 96 ہزار کیوسک تک پہنچ چکا ہے جو خطرناک حد سے کہیں زیادہ ہے۔ خانکی ہیڈ ورکس پر 8 لاکھ 59 ہزار کیوسک کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ سیلابی ریلے تیزی سے آگے کی جانب بڑھتے ہوئے تریمو کے مقام سے گزریں گے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق، دریائے چناب کے طغیانی سے متاثر ہونے والے ممکنہ اضلاع میں گجرات، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، چنیوٹ اور جھنگ شامل ہیں۔
دریائے راوی: شاہدرہ اور جسڑ پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب
دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 66 ہزار کیوسک تک جا پہنچا ہے جبکہ شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جہاں 1 لاکھ 80 ہزار کیوسک سے زائد پانی گزر رہا ہے۔
ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید کے مطابق، شاہدرہ لاہور میں پانی کی گزرنے کی گنجائش 2 لاکھ 50 ہزار کیوسک تک ہے، مگر موجودہ صورتحال انتہائی سنجیدہ ہے۔ مقامی انتظامیہ نے شہریوں سے دریا کے کناروں سے دور رہنے اور ریسکیو ٹیموں کے ساتھ مکمل تعاون کی اپیل کی ہے۔
شاہدرہ کے قرب و جوار کے علاقوں جیسے کوٹ منڈو، جیا موسی، عزیز کالونی، قیصر ٹاؤن، فیصل پارک، ڈھیراور، کوٹ بیگم وغیرہ میں سیلابی پانی کے داخل ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ضلع شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے کئی علاقے بھی متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
دریائے ستلج: گنڈا سنگھ والا اور سلیمانکی پر سیلابی کیفیت
دریائے ستلج میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے۔ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 61 ہزار کیوسک تک پہنچ چکا ہے، جب کہ ہیڈ سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہاں 1 لاکھ 9 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ریلیف اقدامات: وزیراعظم، وزیراعلیٰ، اور اداروں کی متحرک نگرانی
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کے روز سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ریسکیو و ریلیف آپریشن پر بریفنگ لی۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“پنجاب کے میدانوں سے شدید طغیانی گزر رہی ہے۔ اگر ٹیم ورک نہ ہوتا تو نقصان ناقابلِ تلافی ہوتا۔”
انہوں نے سیلاب سے متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کیا اور وفاقی اداروں کو مزید متحرک ہونے کی ہدایت دی۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے شاہدرہ کے مقام پر سیلابی صورتحال کا معائنہ کیا اور کہا:
“میں نے راوی میں اتنا پانی پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر پہلے سے تیاری نہ کی جاتی تو نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ انتظامیہ اور ریسکیو اداروں نے دن رات محنت کی ہے۔”
وزیرِ اطلاعات پنجاب مریم اورنگزیب کے مطابق، سیلاب کے باعث اب تک 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں، تاہم ان ہلاکتوں میں سرکاری اداروں کی کوئی غفلت شامل نہیں۔ انہوں نے ریسکیو ٹیموں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ:
“پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا ہے، یہ اللہ کا کرم اور اداروں کی مستعدی ہے۔”
پی ڈی ایم اے کی وارننگ اور موسم کی صورتحال
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق، سیلاب سے اب تک 6 اموات کی سرکاری تصدیق ہو چکی ہے۔ ادارے نے 29 اگست سے 2 ستمبر تک پنجاب کے بیشتر اضلاع میں مون سون کی طوفانی بارشوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، پولیس اور دیگر ادارے موقع پر موجود ہیں۔ بندوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور پانی کی سطح پر 24 گھنٹے نگرانی جاری ہے۔
عوام سے اپیل: احتیاط اور تعاون کریں
ریلیف کمشنر پنجاب اور وزیراعلیٰ کی جانب سے شہریوں سے بار بار اپیل کی گئی ہے کہ وہ دریا کے کناروں سے دور رہیں، سیر و تفریح کے لیے پانی کے قریب جانے سے گریز کریں، اور انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں۔
پنجاب اس وقت شدید قدرتی چیلنج سے دوچار ہے جہاں دریائے چناب، راوی اور ستلج میں غیر معمولی سیلابی صورتحال سے لاکھوں لوگ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اگرچہ حکومتی اقدامات اور اداروں کی تیاری نے بڑے نقصان سے بچایا، لیکن آنے والے دنوں میں موسمی شدت اور بارشوں کے باعث صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
حکومت، فوج، ریسکیو ادارے اور مقامی انتظامیہ متحرک ہیں، مگر عوامی تعاون اور شعور کی کمی سے نقصان بڑھ سکتا ہے۔ فوری طور پر دریا کے اطراف کے علاقوں میں رہنے والے افراد کو محتاط رہنے اور سرکاری ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔



