بین الاقوامیاہم خبریں

اسرائیل کا مغربی کنارے پر خودمختاری نافذ کرنے پر غور، فلسطینی قیادت اور عوام میں شدید تشویش

فورم کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مغربی کنارے پر اسرائیل کی مکمل گرفت کے عمل کو تیز کیا جائے

مقبوضہ مغربی کنارہ / یروشلم / رام اللہ 

اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے پر خودمختاری نافذ کرنے کے منصوبے پر عملی غور کے آغاز نے فلسطینی قیادت، عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں، چھاپوں، گرفتاریوں اور پرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

وزارتی فورم میں "خودمختاری” کی تجویز پر سنجیدہ غور

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں ایک محدود وزارتی فورم کے ساتھ ملاقات میں مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کے منصوبے پر غور کیا۔ اس اجلاس میں وزیر خزانہ بتسلئیل سموٹرچ، وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون دیرمر اور وزیر خارجہ جدعون ساعر بھی شریک تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ فورم کے دوران دیرمر نے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی، اور اس تجویز پر زور دیا کہ "یہ عمل اگلے چند ہفتوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے”۔ فورم کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مغربی کنارے پر اسرائیل کی مکمل گرفت کے عمل کو تیز کیا جائے، تاکہ کسی بھی بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کے ممکنہ اعتراف سے قبل زمینی حقائق کو اسرائیلی مفاد میں مکمل طور پر بدل دیا جائے۔

فلسطینی قیادت کا سخت ردعمل

فلسطینی صدر محمود عباس نے اس پیشرفت کو سخت ترین الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے اسے "خطرناک اور اشتعال انگیز اقدام” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اسرائیل جان بوجھ کر کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے اور مغربی کنارے کو ایک نیا میدان جنگ بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ فلسطینی عوام کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے۔”

انہوں نے امریکی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ "اگر اسرائیل کو روکا نہ گیا تو یہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایک ناقابل واپسی بحران کی طرف دھکیل دے گا۔”

زمینی صورتِ حال: چھاپے، گرفتاریاں اور شہادتیں

اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں میں مغربی کنارے کے متعدد شہروں — رام اللہ، الخلیل، نابلس، بیت لحم، اور قلقیلیہ — میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارے، درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا، اور شہری املاک کو نقصان پہنچایا۔ کئی علاقوں میں گھروں کو مسمار کر دیا گیا، سڑکوں کو بند کیا گیا، اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔

فلسطینی وزارت صحت اور انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے جاری کشیدگی کے دوران اب تک کم از کم 1016 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 7000 سے زائد زخمی اور 18,000 سے زائد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں، طلباء، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بھی ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے: "الحاق کی طرف بڑھتا اسرائیل”

سیاسی تجزیہ کار اس پیشرفت کو "آزادی کے نظریے پر حملہ” قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل عملاً "حقائق کو بدل کر” بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کے تصور کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ خودمختاری نافذ کرنا دراصل مغربی کنارے کو مکمل طور پر اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کی کوشش ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اوسلو معاہدے، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے اصولوں کی شدید خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ اسرائیلی حکومت کے اس منصوبے سے دو ریاستی حل کے امکانات بھی مزید معدوم ہو جائیں گے۔

امریکہ اور عالمی برادری کی خاموشی پر سوالیہ نشان

اگرچہ فلسطینی قیادت نے امریکہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے، لیکن اب تک واشنگٹن کی جانب سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب لیگ نے بھی رسمی سطح پر تشویش تو ظاہر کی ہے، تاہم اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔

اسرائیلی حکومت کی داخلی سیاست کا پس منظر

یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب نیتن یاہو کی حکومت کو اندرون ملک مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں معیشت، عدالتی اصلاحات، اور بڑھتی ہوئی سیکیورٹی خدشات شامل ہیں۔ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ مغربی کنارے پر خودمختاری نافذ کرنے کا بیانیہ دراصل حکومت کی مقبولیت بچانے کی ایک کوشش ہے، جس کے ذریعے سخت گیر قوم پرستوں کو خوش کیا جا رہا ہے۔


خطے میں کشیدگی کے مزید امکانات

مغربی کنارے پر خودمختاری نافذ کرنے کے منصوبے نے نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے بلکہ خطے میں ایک نئے اور سنگین تصادم کا خدشہ بھی پیدا کر دیا ہے۔ اگر اسرائیل اپنے اس منصوبے پر عمل درآمد کرتا ہے تو آنے والے دنوں میں مغربی کنارہ بھی غزہ کی طرح ایک بڑی انسانی، سیاسی اور عسکری تباہی کا مرکز بن سکتا ہے۔

فلسطینی عوام اور قیادت کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے: کیا عالمی برادری اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گی یا پھر فلسطینی سرزمین پر قبضے کی ایک نئی، قانونی شکل کو تسلیم کر لیا جائے گا؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button