
غزہ میں 22 ماہ سے جاری جنگ کے دوران ہلاکتیں 63 ہزار سے تجاوز کر گئیں — قحط، بمباری اور انسانی بحران مزید سنگین
قوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ بدترین انسانی بحران کا شکار ہو چکا ہے
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 22 ماہ سے جاری خونی تصادم نے ایک اور ہولناک سنگِ میل عبور کر لیا، جہاں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 63,025 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار آج غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کی جانب سے جاری کیے گئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 59 افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ غذائی قلت کے باعث مزید 5 جانیں ضائع ہو گئیں۔
شہری آبادی بدترین انسانی المیے کا شکار
اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے غزہ شہر میں اپنی کارروائیوں کو مزید وسعت دی ہے، جس کے باعث شہر کا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر ہے۔ بڑی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، جب کہ اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں اور بنیادی سہولیات مفلوج ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ بدترین انسانی بحران کا شکار ہو چکا ہے، جہاں نہ صرف بمباری بلکہ قحط، پانی کی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی بھی ہلاکتوں کی بڑی وجہ بن چکی ہیں۔
غذائی قلت سے 322 افراد ہلاک، 121 بچے شامل
غذائی قلت ایک خاموش قاتل کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک غذائی قلت کے باعث 322 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 121 بچے شامل ہیں۔ بچوں اور بزرگوں میں شدید غذائی قلت کے باعث اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر عالمی تنظیمیں بارہا اس جانب توجہ دلاتی آئی ہیں، مگر موثر اقدامات کی عدم موجودگی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اسرائیل کی بمباری جاری، تباہی میں اضافہ
غزہ شہر، خان یونس، رفح اور دیر البلح سمیت متعدد علاقوں میں اسرائیلی فضائی حملے مسلسل جاری ہیں، جن میں رہائشی عمارتیں، مساجد، اسکول اور صحت مراکز بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ غزہ کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد ان حملوں کا نتیجہ ہے، جب کہ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے۔
تاہم، آزاد مبصرین اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق متعدد حملے عام شہری علاقوں پر کیے گئے ہیں، جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ بھی جاں بحق ہوئے۔
وزارت صحت کے اعداد و شمار اور اسرائیلی مؤقف
غزہ کی وزارت صحت جنگ میں مرنے والوں کی تفریق (شہری یا جنگجو) نہیں کرتی، تاہم اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس وزارت کے اعداد و شمار کو نسبتاً معتبر اور مستند تصور کرتے ہیں۔ اسرائیل ان اعداد و شمار کو اکثر "مبالغہ آمیز” قرار دیتا ہے، مگر ابھی تک اس نے اپنی طرف سے کوئی متبادل یا قابل تصدیق اعداد و شمار فراہم نہیں کیے۔
اقوام متحدہ اور عالمی ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے حالیہ بیان میں جنگ کے شدت اختیار کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی راہ ہموار کرنے کی اپیل کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں "زندہ بچ جانا خود ایک معجزہ بن چکا ہے”۔
بین الاقوامی ریڈ کراس، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیمیں (MSF) مسلسل اپیل کر رہی ہیں کہ غزہ میں انسانی امداد کی فوری اور بلارکاوٹ فراہمی ممکن بنائی جائے۔
22 ماہ سے جاری جنگ میں غزہ پٹی مکمل طور پر انسانی المیے میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں ہلاکتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، اور بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔ اب تک 63,000 سے زائد افراد کی جانیں جا چکی ہیں، اور لاکھوں لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
جنگ کے خاتمے، جنگ بندی کے قیام، اور انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو فوری، مؤثر اور غیرجانبدارانہ اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ تاریخ ایک اور نسل کشی کی گواہی دے گی — جو دنیا نے دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ کیا۔