
لاہور میں وائس چانسلرز کانفرنس 2025ء: اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات، تحقیق، اور سماجی ہم آہنگی پر زور
"ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کو نالج اکانومی کا مرکز بنانا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم تحقیق، تربیت اور ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہوں۔" — ڈاکٹر اقرار احمد خان
سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (PHEC) اور نوجوانوں کی ترقی کے لیے سرگرم تنظیم برگد کے اشتراک سے لاہور میں منعقد ہونے والی "وائس چانسلرز کانفرنس 2025ء” اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات، پائیداری، اور عالمی ہم آہنگی کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوئی۔
اس اہم کانفرنس میں 100 سے زائد وائس چانسلرز، ریکٹرز، پالیسی سازوں، بین الاقوامی ماہرین، اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے شرکت کی۔
کانفرنس کا بنیادی مقصد پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کو مؤثر، جدید، اور فطرت دوست ترقیاتی ترجیحات کے مطابق ہم آہنگ کرنا تھا۔
افتتاحی سیشن: قومی ضروریات اور عالمی معیار کی ہم آہنگی پر زور
افتتاحی اجلاس سے چیئرمین پی ایچ ای سی، ڈاکٹر اقرار احمد خان اور برگد کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، صبیحہ شاہین نے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو صرف ڈگریوں کی فراہمی تک محدود نہیں رکھا جا سکتا، بلکہ اب ضروری ہے کہ یہ نظام قومی ترقی، جدت، اور عالمی رجحانات کے ساتھ ہم قدم ہو۔
"ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کو نالج اکانومی کا مرکز بنانا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم تحقیق، تربیت اور ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہوں۔”
— ڈاکٹر اقرار احمد خان
پانچ کلیدی موضوعات پر سیشنز
کانفرنس کو پانچ اہم موضوعات میں تقسیم کیا گیا، ہر سیشن میں متعلقہ ماہرین نے اپنے خیالات اور سفارشات پیش کیں:
1. عالمی تناظر اور بین الاقوامی تعاون
اس سیشن کی صدارت سردار مسعود خان (سابق سفیر برائے امریکہ و چین) نے کی۔
مہمان مقررین میں شامل تھے:
ڈاکٹر آندریاس بُرکرٹ (یونیورسٹی آف کاسل، جرمنی)
پروفیسر راحیل نواز (اسٹافورڈ شائر یونیورسٹی، برطانیہ)
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ:
2029ء تک پاکستانی یونیورسٹیوں میں مصنوعی ذہانت (AI)، ڈیٹا سائنس اور ماحولیاتی لچک (climate resilience) کو نصاب کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔
بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے ساتھ ریسرچ پارٹنرشپ اور اساتذہ و طلبہ کے تبادلے کے پروگرامز میں اضافہ کیا جائے۔
2. تحقیق اور تدریس میں جدت
اس سیشن کی صدارت ڈاکٹر طارق بنوری (سابق چیئرمین HEC) نے کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جامعات میں تحقیق کا ڈھانچہ کمزور ہے۔
"یونیورسٹیوں کو صرف تعلیم نہیں، بلکہ مسئلہ حل کرنے والے تحقیقی مراکز بننے کی ضرورت ہے۔”
3. کوالٹی ایشورنس اور ادارہ جاتی اصلاحات
صدر زیبست، شہناز وزیر علی نے سیشن کی قیادت کی۔
ان کے ہمراہ:
پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین (سابق چیئرمین HEC)
ان کی گفتگو کا محور تھا:
مضبوط کوالٹی انہانسمنٹ سیل (QEC) کی اہمیت
ادارہ جاتی خودمختاری
نصاب، تدریس، اور جائزے کے نظام میں بین الاقوامی معیارات کا نفاذ
4. مالی پائیداری اور ڈیجیٹل گورننس
پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے اس سیشن میں کہا:
"یونیورسٹیوں کو سرکاری گرانٹس پر انحصار ختم کر کے ریونیو جنریشن ماڈلز کو اپنانا چاہیے۔”
ڈیجیٹلائزیشن صرف ایک سہولت نہیں بلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔
ای گورننس، آن لائن لرننگ، اور ڈیٹا بیسڈ پالیسی میکنگ جیسے اقدامات کو فروغ دیا جائے۔
5. سماجی ہم آہنگی اور شہری اقدار
یہ سیشن صبیحہ شاہین اور پروفیسر ڈاکٹر معید یوسف (سابق مشیر قومی سلامتی) کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہوا۔
مقررین میں شامل تھے:
پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا
پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین
ڈاکٹر ثاقب مختار
انہوں نے زور دیا کہ:
یونیورسٹیاں صرف تعلیمی ادارے نہیں، سماجی شعور پیدا کرنے والی اکائیاں ہیں۔
نصاب میں شہری ذمہ داری، جمہوری روایات، اور تنوع کے احترام جیسے موضوعات شامل کیے جائیں۔
"ہمیں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو نہ صرف ہنر مند ہو بلکہ حساس، باشعور اور پرامن بھی ہو۔”
— صبیحہ شاہین
اختتامی اجلاس: قیادت، تربیت، اور اصلاحات کی راہ
سابق چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC)، جناب حسیب اطہر نے اختتامی سیشن میں کہا:
"پاکستان کی اعلیٰ تعلیم اس وقت تک عالمی سطح پر مقام حاصل نہیں کر سکتی، جب تک ہم اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت اور تعلیمی قیادت پر سرمایہ کاری نہ کریں۔”
کانفرنس کا اختتام ایک مشترکہ اعلامیہ اور جامع اصلاحاتی سفارشات کے اجرا پر ہوا۔ ان سفارشات میں درج ذیل نکات شامل تھے:
✅ عالمی معیار سے ہم آہنگ نصاب
✅ تحقیق کی مالی معاونت
✅ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی
✅ سماجی و اخلاقی تربیت
✅ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈلز
نتیجہ: آگے کا راستہ
وائس چانسلرز کانفرنس 2025ء ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب پاکستان کو تعلیمی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
یہ کانفرنس اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کی جامعات اب روایتی ماڈل سے نکل کر عالمی سطح پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کانفرنس میں کی جانے والی سفارشات اور وژن کو کس حد تک عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔



