اہم خبریںصحت

🇵🇰 پاکستانی سائنسدانوں کی انقلابی کامیابی: آلودہ پانی سے گرین ہائیڈروجن بنانے کا سستا طریقہ دریافت

ماحول دوست توانائی کی طرف ایک بڑا قدم، عالمی سطح پر سراہا جانے والا منصوبہ

اسلام آباد / ملبورن – پاکستانی سائنسدانوں نے آلودہ پانی سے "گرین ہائیڈروجن” تیار کرنے کا ایک سستا، مؤثر اور ماحول دوست طریقہ دریافت کیا ہے، جو مستقبل میں توانائی کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے اور پانی کی قلت جیسے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق رائل میلبورن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (RMIT) سے وابستہ پاکستانی سائنسدانوں ڈاکٹر محمد حارث اور پروفیسر ناصر محمود کی قیادت میں کی گئی، جنہوں نے آسٹریلیا کی دو بڑی یونیورسٹیوں — یونیورسٹی آف میلبورن اور یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز — کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔


تحقیقی کامیابی کا بنیادی خاکہ: آلودہ پانی کو ذریعہ توانائی میں بدلنے کا نیا نظریہ

تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ حال ہی میں معروف سائنسی جریدے ‘اے سی ایس جنرل آف الیکٹروکیمسٹری’ میں شائع کی، جس کے مطابق آلودہ پانی میں موجود بھاری دھاتوں جیسے کرومیم، نکل اور پلاٹینم کو بطور کیمیکل کٹالسٹ استعمال کرتے ہوئے الیکٹرولائسز کے ذریعے ہائیڈروجن گیس تیار کی گئی۔

عام طور پر گرین ہائیڈروجن کی تیاری میں صاف پانی درکار ہوتا ہے، جو پانی کی کمی والے ممالک میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تاہم اس نئی تکنیک کے ذریعے آلودہ اور صنعتی فضلے والے پانی کو توانائی کے حصول میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جو اسے پائیدار اور ماحولیاتی طور پر محفوظ بناتا ہے۔


عالمی سیاق و سباق: پانی کی قلت اور آلودگی کے خلاف ایک مؤثر حل

اقوامِ متحدہ کی 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 80 فیصد آلودہ پانی دوبارہ استعمال کے بغیر ندیوں اور جھیلوں میں شامل کر دیا جاتا ہے، جس سے آبی حیات اور انسانی صحت دونوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
ایسے میں پاکستانی سائنسدانوں کی یہ ایجاد نہ صرف آلودگی کو کم کرنے بلکہ پانی کی ری سائیکلنگ کو ممکن بنا کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک بڑا سنگ میل بن سکتی ہے۔


تکنیکی پہلو: سستے الیکٹروڈز اور زراعتی فضلے کا استعمال

پروفیسر ناصر محمود کے مطابق، ٹیم نے خاص قسم کے الیکٹروڈز تیار کیے ہیں، جو کاربن سے بنے جاذب ذرات پر مشتمل ہیں۔ یہ الیکٹروڈز آلودہ پانی میں موجود بھاری دھاتوں کو اپنی سطح پر جذب کرتے ہیں، اور انہیں عمل انگیز (Catalyst) میں تبدیل کرتے ہیں، جو بجلی کے بہاؤ کو مؤثر بناتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان الیکٹروڈز کو زرعی فضلے سے تیار کیا گیا ہے، جس سے لاگت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس طرح یہ نظام نہ صرف آلودہ پانی کو استعمال کرتا ہے بلکہ زرعی کچرے کی ری سائیکلنگ بھی کرتا ہے، جو سرکلر اکانومی کے اصولوں کے مطابق ہے۔


18 دن کی مسلسل کارکردگی: پائیداری کی علامت

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ نظام مسلسل 18 دن تک موثر طریقے سے کام کرتا ہے، اور اس کی کارکردگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
اس دوران، پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل کرنے کے عمل میں نہ صرف توانائی حاصل ہوتی ہے، بلکہ آلودہ پانی میں موجود نامیاتی مادے، بھاری دھاتیں اور غذائی اجزاء بھی الگ کیے جا سکتے ہیں، جو اسے ملٹی پرپز ٹیکنالوجی بناتا ہے۔


مستقبل کا خاکہ: پورٹیبل ہائیڈروجن جنریٹرز کی تیاری کی منصوبہ بندی

ڈاکٹر محمد حارث، جو اس تحقیق کے شریک مصنف ہیں، نے بتایا کہ اس سسٹم کو ماڈیولر ڈیزائن پر تیار کیا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں پورٹیبل گرین ہائیڈروجن جنریٹرز بنائے جا سکیں۔

یہ جنریٹرز خصوصی طور پر ان علاقوں میں کام آئیں گے:

  • جہاں بجلی کی فراہمی محدود یا غیر موجود ہو (آف گرڈ علاقے)

  • پانی کی شدید کمی ہو

  • قدرتی آفات یا ہنگامی حالات کا سامنا ہو

ڈاکٹر حارث کے مطابق، ان کی ٹیم اس سسٹم کو کمرشل سطح پر لانے کے لیے مختلف انڈسٹری پارٹنرز سے بات چیت کر رہی ہے۔


ماحولیاتی فوائد اور سماجی اثرات

یہ نئی تکنیک نہ صرف توانائی کے شعبے میں انقلاب لا سکتی ہے بلکہ:

  • پانی کے ضیاع کو کم کر سکتی ہے

  • آلودگی کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے

  • صنعتی اور زرعی فضلے کو کارآمد بنا سکتی ہے

  • ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں معاون ہو سکتی ہے


بین الاقوامی سطح پر پذیرائی

بین الاقوامی سائنسی برادری نے پاکستانی سائنسدانوں کی اس کامیابی کو گرین انرجی سیکٹر میں "گیم چینجر” قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر اس تکنیک کو عالمی سطح پر اپنایا جائے تو یہ توانائی اور پانی کے بحران کے دوہرے مسئلے کو بیک وقت حل کر سکتی ہے۔


سادہ، سستا، پائیدار — پاکستان کی دنیا کو پیش کش

پاکستانی سائنسدانوں کی یہ کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کی تحقیق کو سرمایہ کاری، حوصلہ افزائی اور عالمی اشتراک حاصل ہو۔

یہ پیش رفت نہ صرف پاکستانی سائنسی دنیا کے لیے ایک اعزاز ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک امید کی کرن بھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button