
پیمرا کی ٹی وی چینلز کو سخت وارننگ: کرائم سینز، ملزمان کے انٹرویوز اور برآمد شدہ شواہد کی نشریات پر پابندی
"ایسا مواد نہ صرف زیرِ تفتیش کیسز پر اثر انداز ہوتا ہے، بلکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور عوامی اعتماد میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔"
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی): پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ملک بھر کے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کو ایک مرتبہ پھر سختی سے ہدایت جاری کی ہے کہ وہ کرائم سینز، برآمد شدہ اشیاء، اور زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز نشر کرنے سے فوری طور پر باز رہیں۔ پیمرا نے واضح کیا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پیمرا ہیڈکوارٹرز سے جاری ہونے والے تازہ ترین سرکلر میں چینلز کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ ہدایات پہلے سے موجود ضوابط کا تسلسل ہیں، اور ان کا مقصد میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتوں اور تحقیقات کو متاثر ہونے سے بچانا ہے۔
پولیس کی درخواست پر فوری کارروائی
یہ ہدایات اس وقت جاری کی گئیں جب سندھ پولیس کی جانب سے پیمرا کو باقاعدہ درخواست موصول ہوئی، جس میں نشریاتی اداروں کی جانب سے مقدمات سے متعلق حساس معلومات، ویڈیوز، اور ملزمان کے بیانات نشر کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، ایسی نشریات مقدمات کی تفتیش، عوامی رائے سازی، اور عدالتی کارروائیوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
سرکلر میں پیمرا نے کہا:
"ایسا مواد نہ صرف زیرِ تفتیش کیسز پر اثر انداز ہوتا ہے، بلکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور عوامی اعتماد میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔”
سابقہ ہدایات کی خلاف ورزی، حساس مواد کا غیر ذمہ دارانہ استعمال
پیمرا کی دستاویز میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ماضی میں جون اور نومبر 2023 میں بھی تمام چینلز کو ایسے مواد کی نشریات سے روکنے کے لیے ہدایات دی جا چکی ہیں۔ اس کے باوجود، بعض چینلز نے سی سی ٹی وی فوٹیج، ملزمان کے انٹرویوز، اور جائے وقوعہ کی تفصیلات نشر کیں جن سے کئی تحقیقات متاثر ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق، متعدد مواقع پر دہشت گردی اور قتل جیسے سنگین مقدمات میں ایسی فوٹیجز کے باعث نہ صرف تحقیقات پیچیدہ ہوئیں بلکہ متاثرہ خاندانوں کے جذبات بھی مجروح ہوئے۔
ریٹنگ کی دوڑ یا عوامی ذمہ داری؟
پیمرا نے میڈیا اداروں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ "ریٹنگ کی دوڑ” میں شامل ہونے کی بجائے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا احساس کریں اور صحافتی اصولوں پر عمل کریں۔ ادارہ سمجھتا ہے کہ صحافت میں آزادی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی لازم ہے۔
ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ:
"تمام چینلز اپنے نیوز ایڈیٹرز، پروگرام مینیجرز، گرافک ڈیزائنرز اور نان لینیئر ایڈیٹرز کو اس ہدایت سے آگاہ کریں تاکہ اس پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔”
قانونی نتائج اور کارروائی کی وضاحت
پیمرا نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی چینل کی جانب سے ان ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27، 29A، 30، اور 33 کے تحت کارروائی کی جائے گی، جب کہ یہ اقدامات حالیہ پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے تحت مزید مؤثر بنائے گئے ہیں۔
ان سیکشنز کے تحت چینلز کو جرمانے، لائسنس معطلی، یا نشریات کی بندش جیسے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صحافت کی حدود: اظہارِ رائے کی آزادی بمقابلہ عدالتی انصاف
میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ کرائم رپورٹنگ کے حوالے سے پاکستان میں ایک جامع ضابطہ اخلاق کی سخت ضرورت ہے۔ اگرچہ معلومات تک عوامی رسائی جمہوری حق ہے، لیکن جب یہی معلومات عدالتی انصاف کو متاثر کرنے لگیں، تو پیمرا جیسی ریگولیٹری اتھارٹی کا مداخلت کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
میڈیا کے چند حلقے اس اقدام کو "اظہارِ رائے کی آزادی” پر قدغن سمجھتے ہیں، جبکہ قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے ادارے اسے ایک متوازن قدم تصور کرتے ہیں جو صحافت اور انصاف کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتا ہے۔
ماضی کی مثالیں اور تنقید
اس سے قبل بھی معروف کیسز جیسے مشال خان قتل کیس، زینب زیادتی کیس، اور حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں سی سی ٹی وی اور ملزمان کی فوٹیجز کے میڈیا پر نشر ہونے پر پیمرا کو عوامی، عدالتی، اور حکومتی حلقوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پیمرا نے اس پس منظر میں واضح کیا ہے کہ ادارے کا مقصد آزادی صحافت کو سلب کرنا نہیں بلکہ اس کی سمت درست رکھنا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے اور متاثرہ فریقین کے حقوق محفوظ رہیں۔
نتیجہ: میڈیا اور ریاستی اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت
موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ میڈیا اور ریاستی ادارے باہم مل کر ایسے ضابطہ اخلاق مرتب کریں جو نہ صرف تحقیقاتی عمل کا احترام کرے بلکہ عوام کے معلوماتی حق کو بھی متاثر نہ کرے۔ یہ توازن ہی جمہوری معاشروں کی بنیاد ہے۔
پیمرا کی یہ ہدایات اس توازن کی کوشش کا ایک حصہ سمجھی جا رہی ہیں، اور وقت بتائے گا کہ میڈیا ادارے اس کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔