
فاصلوں کو بڑھنے سے روکنا ہو گا !…….ناصف اعوان
وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں بالخصوص حزب اختلاف کی بڑی جماعت پی ٹی آئی کو ‘ جس کو تمام ملکوں کے لوگ اور حکمران اہمیت دے رہے ہیں لہذا سٹیٹس کو کے حامیوں کو اپنے اندرلچک پیدا کرنی چاہیے تاکہ جگ ہنسائی نہ ہو
حکومت چلے جا رہی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ لوگ بیوقوف ہیں اور اس کی ہر ایک ادا کو پسند کرتے ہیں ؟
اسے یہ کیوں معلوم نہیں کہ آج کا شہری باشعور ہے باخبر ہے کوئی بھی سیاسی و غیر سیاسی شخصیت سطحیت کے بل بوتے پر اسے متاثر نہیں کر سکتی وہ سنجیدہ فہم ہے اُس کو اِس فرسودہ نظام نے بہت کچھ سکھا دیا ہے لہذا حکمرانوں کے ہر فعل کو وہ اپنے شعور و آگہی کی کسوٹی پر پرکھنے لگا ہے مگر حیرت ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرنے کے لئے جتنی بھی پالیسیاں اور منصوبے تیار کر رہے ہیں انہیں عوام دل و جان سے تسلیم نہیں کر رہے اور ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں مگر وہ بضد ہیں کہ انہیں مانو جو کہ ممکن نہیں کیونکہ موجودہ صورت حال بےحد تلخ ہو چکی ہے مہنگائی ناانصافی اور بے روزگاری نے لوگوں کو نڈھال و بے حال کر دیا ہے اور اہل اقتدار کا طرز عمل روز بروز عجیب و غریب ہوتا جا رہا ہے۔ وہ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو نگاہوں سے اوجھل کرنے کے لئے طرح طرح کے حکمت عملیاں اختیار کر رہے ہیں پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے گیت گائیں مگر وہ اور بھی ان سے دور ہو رہے ہیں کیونکہ وہ روایتی نظام حکومت سے نجات چاہتے ہیں جس نے انہیں غربت کی لکیر سے اوپر نہیں آنے دیا یہ کہ عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض بنادیا ان کے حصے کی دولت کو ہتھیا کر باہر کے ملکوں میں پہنچایا۔
خلیل جبران کہتا ہے کہ ”تم جسموں کو قید کر سکتے ہو روحوں کو نہیں “ لہذا ہونا یہ چاہیے کہ حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں وہ دکھاوے کے اور عارضی پروگراموں سے اجتناب کریں بار بار عرض کیا جاتا ہے کہ یہ دور بیداری کا ہے دنیا بہت آگے نکل چکی ہے وہ جمہوریت کو ترجیح دے رہی ہے انسانی آزادیوں کو لازمی قرار دے رہی ہے اور جنگوں کی شدید مخالفت کر رہی ہے مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ دکھائی دیتا ہے لہذا عوام کی غالب اکثریت حکمران طبقہ سے نالاں نظر آتی ہے اور روایتی چہروں کو تبدیل کرنے کی خواہشمند ہے مگر سٹیٹس کو کی محافظ قوتیں ایسا نہیں چاہتیں کہ اگر یہ نظام تبدیل ہوتا ہے تو تجوریوں کے بھرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے جتنی بھی دولت چند خاندانوں میں تقسیم ہوئی ہو رہی ہے وہ قومی تحویل میں آجاتی ہے ۔پھر غیر ملکی دوروں پر ”آنڈی گوانڈی “ ساتھ نہیں لے جائے جاسکیں گے اللوں تللوں کا دور ختم ہو جاتا ہے لہذا عوام کا پیسا ہڑپ کرنے والوں کو نظام کی تبدیلی وارے میں نہیں وگرنہ کیوں ایسی حکومت مسلط ہو جو عوام کے حقوق سے چشم پوشی اختیار کرتی ہو۔ ہمارا تجزیہ کہتا ہے کہ یہ صورت حال ایسے ہی نہیں رہے گی تبدیل ہو جائے گی کیونکہ اس ریجن کی بڑی طاقتیں عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتی ہیں انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ اگر پاکستان کے عوام غریب و بے بس ہوتے ہیں تو ان کا رخ کسی دوسری بڑی طاقت کی جانب مڑ سکتا ہے جو ان کے لئے بالکل مناسب نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے حکومتی عہدیداروں کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ۔ ہمارے وزیر اعظم تو ان کو متوجہ نہیں کر پا رہے چلیں میزبانوں کو تو چاہیے کہ وہ پورا پروٹو کول دیں کیونکہ جیسا بھی ہے وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور بطور وزیر اعظم کرتے ہیں اور پاکستان ایک انتہائی اہم ملک ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا!
بہرحال حکمرانوں کے سمجھنے سوچنے کے لئے کافی کچھ ہے. وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں بالخصوص حزب اختلاف کی بڑی جماعت پی ٹی آئی کو ‘ جس کو تمام ملکوں کے لوگ اور حکمران اہمیت دے رہے ہیں لہذا سٹیٹس کو کے حامیوں کو اپنے اندرلچک پیدا کرنی چاہیے تاکہ جگ ہنسائی نہ ہو اور جو سرمایہ کاری ہونا ہے اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو مگر ہماری سنتا کون ہے کیونکہ ہر حکمران یہی سمجھتا ہے کہ عوام کو کیا معلوم کہ ریاستی امور کیسے نمٹائے جاتے ہیں ان کی تو عقل ہی محدود ہوتی ہے ۔ وہ ٹھیک ہی سمجھتے ہیں وگرنہ وہ انہیں حکمران کیوں بنائیں جو ان کو غربت سے نجات نہیں دلا سکتے ان کو روزگار و انصاف ہی نہیں فراہم کر سکتے تھانوں اور پٹوار خانوں کی زیادتیوں کو ختم نہیں کروا سکتے ۔
ہمیشہ عوام کو بیوقوف سمجھا گیا ہے انہیں ان پڑھ اور جاہل رکھنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اب ایسا نہیں ہے ٹچ موبائل نے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور حکمرانوں کی ہر ہر حرکت کو بیچ چوراہے لا کھڑا کیا ہے اس کے باوجود وہ اپنی عادات بدلنا نہیں چاہتے اور مصر ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں اسے درست اور قابل عمل سمجھا جائے جو کہ ممکن نہیں لہذا انہیں چاہیے کہ عوام کے جذبات کو سمجھیں ان کی خواہشات کا احترام کریں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں وہ اگر ساتھ نہیں تو ہماری دنیا میں کوئی حثیت بھی نہیں کیونکہ دنیا آزاد ہے اور ترقی پسند ہے لہذا وہ جبر وظلم کے سخت خلاف ہے اس تناظر میں ترقی پزیر ممالک کو اپنا پرانا راستہ بدل لینا چاہیے ۔ بصورت دیگر جس طرح دریا بپھر رہے ہیں اسی طرح ان کے عوام بھی پورے جوش وجذبے سے شاہراہ احتجاج پر آسکتے ہیں چھوٹے بڑے اجتماعات میں ان کے ذہنوں میں ابھرنے والے بھونچالوں کو واضح طور سے دیکھا جا سکتا ہے
اٹھہتر برس ہو گئے انہیں بہتر مستقبل کی آس لگائے مگر حکمرانوں نے انہیں دھوکا دیا خود ملکی دولت سمیٹ کر اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف رہے وہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اب بھی اسے روک دیا جاتا ہے تو لوگوں کو دیر بعد ہی سہی چراغوں کے روشن ہونے کا یقین ہو جاتا ہے مگر وہی پرانی روش وہی شاہانہ طرز بود و بوش اور وہی قومی سرمائے کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے لہذا عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں جنہیں روکنا مشکل ہو گا کیونکہ ہر دن ان کے لئے مصیبت بن کر آرہا ہے جس کا زمہ دار وہ اہل اقتدار کو سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ان پر آنکھیں بند کرکے سخت سے سخت قوانین کا نفاذ کرتے چلے جا رہے ہیں پھر ان پر اتنا قرضہ چڑھا دیا گیا ہے کہ جسے اتارنے کے کے لئے کوئی انقلاب لانا پڑے گا جسے وہ نہیں لانا چاہتے لہذا عوام کیسے خوشحال زندگی گزار سکیں گے اور کیسے نئی نسل کو محفوظ و روشن مستقبل دے سکیں گے اس لئے ان کا جزباتی ہونا اور حکمران طبقہ سے فاصلے پر کھڑا ہونا سمجھ میں آتا ہے !