
پاکستانی خواتین میں تیزی سے پھیلتا پولی سسٹک اووری سنڈروم (PCOS)، بانجھ پن میں خطرناک حد تک اضافہ
یہ صرف ماہواری کی بے قاعدگی یا وزن بڑھنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک مکمل جسمانی اور ذہنی عذاب ہے۔
وائس آف جرمنی خصوصی رپورٹ:
پاکستان میں خواتین کی تولیدی صحت ایک سنجیدہ بحران کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں پولی سسٹک اووری سنڈروم (Polycystic Ovary Syndrome) یا پی سی او ایس (PCOS) نامی ہارمونل بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ طبی ماہرین اور محققین کے مطابق یہ مرض نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے، اور بانجھ پن میں خطرناک حد تک اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
تازہ ترین طبی رپورٹس اور مشاہدات کے مطابق پاکستان میں تقریباً 52 فیصد خواتین اس مرض سے متاثر ہیں، جو کہ ایک وبائی پھیلاؤ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ناقص غذائی عادات، غیر فعال طرزِ زندگی، جینیاتی عوامل اور سماجی رویے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
ایک نظر مریضوں کے تجربات پر: درد، لاعلمی اور معاشرتی دباؤ
شاہدہ خان، جو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ-8 کی رہائشی ہیں، آٹھ سال سے پی سی او ایس کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
"یہ صرف ماہواری کی بے قاعدگی یا وزن بڑھنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک مکمل جسمانی اور ذہنی عذاب ہے۔ چہرے پر دانے، سیاہ دھبے، بالوں کی زیادتی، خود اعتمادی کی کمی — ہر چیز اس مرض کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ انہیں اس مرض کی تشخیص کئی سال بعد ہوئی، اور تب تک ان کی حالت خاصی بگڑ چکی تھی۔ "متوازن غذا، ورزش اور باقاعدہ علاج نے کچھ بہتری تو دی، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی لڑکیوں کو تو اس مرض کے نام تک کا علم نہیں۔”
وریشہ کیانی، راولپنڈی کی رہائشی اور 35 سالہ خاتون، گزشتہ کئی سال سے پی سی او ایس کا شکار ہیں۔ ان کی شادی کو دس برس ہو چکے ہیں لیکن وہ ماں نہیں بن سکیں۔
"کئی بار حمل ٹھہرا، لیکن ہر بار کسی پیچیدگی کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کزن میرج ایک بڑی وجہ ہے، مگر ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔”
وریشہ کیانی کا دکھ صرف ذاتی نہیں بلکہ ہزاروں ایسی خواتین کا مشترکہ درد ہے جنہیں لاعلمی، سماجی دباؤ اور ناقص طبی رسائی کی وجہ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پی سی او ایس کیا ہے؟ ماہرین کی رائے
اسلام آباد کے پاک نیول ہسپتال کی ریذیڈنٹ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ماہ نور محمود کے مطابق:
"پی سی او ایس ایک ہارمونل بیماری ہے جو ماہواری کی بے ضابطگی، چہرے اور جسم پر غیر معمولی بالوں، مہاسوں، گنج پن اور بانجھ پن جیسی علامات کا باعث بنتی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ جدید ریسرچ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر دوسری خاتون کسی نہ کسی حد تک اس مرض کی شکار ہے۔ ان کا کہنا ہے:
"میرے پاس آنے والے ہر چوتھے جوڑے میں عورت بانجھ پن کا شکار ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پی سی او ایس ہوتی ہے۔”
راولپنڈی کے معروف ہولی فیملی ہسپتال کی سابق سربراہ اور اسلام آباد کے لائف کیئر ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر فرحت ارشد نے تو یہاں تک کہا:
"یہ بیماری اب ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ میرے پاس علاج کے لیے آنے والی ہر دوسری یا تیسری لڑکی کو یہی مسئلہ ہوتا ہے۔”
وجوہات: جینیات، لائف اسٹائل اور معاشرتی بے حسی
ماہرین کے مطابق پی سی او ایس کا تعلق صرف ہارمونی عدم توازن سے نہیں بلکہ:
غیر متوازن غذا
جنک فوڈ کا زیادہ استعمال
ورزش کی کمی
رات کو جاگنے اور دن میں سونے کی عادت
جینیاتی عوامل
وٹامن ڈی اور کیلشیم کی شدید کمی
کزن میرج جیسے سماجی رجحانات
یہ تمام عوامل مل کر اس مرض کو پھیلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت ارشد کہتی ہیں:
"آج کل نوجوان لڑکیاں فاسٹ فوڈ، سافٹ ڈرنکس اور بیٹھے رہنے والے طرزِ زندگی کی عادی ہو چکی ہیں۔ وزن کا بڑھنا، وٹامنز کی کمی، اور جسمانی سرگرمی کی کمی اس مرض کو بڑھا رہی ہے۔”
نتائج: صرف بانجھ پن نہیں بلکہ سنگین خطرات
پی سی او ایس صرف بانجھ پن تک محدود نہیں بلکہ:
ٹائپ 2 ذیابیطس
دل کی بیماریاں
ہائی بلڈ پریشر
یوٹیرس یا بریسٹ کینسر جیسے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
یہ مرض زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتا ہے — ازدواجی تعلقات، خود اعتمادی، جذباتی صحت، اور حتیٰ کہ خواتین کی سماجی زندگی بھی۔
علاج: لائف اسٹائل کی تبدیلی اولین قدم
پی سی او ایس کے علاج میں سب سے پہلا اور اہم قدم طرزِ زندگی کی تبدیلی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق:
✔ اگر کوئی خاتون صرف پانچ فیصد وزن بھی کم کر لے، تو علامات میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
✔ متوازن غذا، باقاعدگی سے ورزش، ذہنی سکون، اور سونے جاگنے کے درست اوقات اس بیماری کو کافی حد تک کنٹرول کر سکتے ہیں۔
✔ مخصوص ادویات اور ہارمون ریگولیٹرز بھی استعمال ہوتے ہیں، لیکن مکمل علاج طرزِ زندگی کی اصلاح سے ہی ممکن ہے۔
وقت کی پکار — آگاہی، تحقیق اور حکومتی اقدامات
ماہرین اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پی سی او ایس کو قومی سطح پر بطور صحت بحران تسلیم کیا جائے۔ حکومت، صحت کے ادارے، تعلیمی ادارے اور میڈیا کو آگے بڑھ کر:
پی سی او ایس سے متعلق معلوماتی مہمات چلانی چاہییں
سرکاری اسپتالوں میں خصوصی کلینکس قائم کیے جائیں
سکول و کالج کی سطح پر آگاہی ورکشاپس منعقد کی جائیں
نوجوانوں کو صحت مند طرز زندگی کے فوائد سکھائے جائیں
کیونکہ جب تک خواتین صحت مند نہیں ہوں گی، ایک صحت مند نسل اور معاشرہ تشکیل دینا ممکن نہیں۔