پاکستاناہم خبریں

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تشویشناک رپورٹ: پاکستان میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی، چینی ٹیکنالوجی کا استعمال، پرائیویسی خطرے میں

ایمنسٹی کے مطابق، پاکستانی انٹیلیجنس ادارے روزانہ کروڑوں شہریوں کی ٹیلی فون کالز، ٹیکسٹ پیغامات اور آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں

ایجنسیاں

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی اور انٹرنیٹ سینسرشپ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ریاستی نگرانی کا نیٹ ورک "چین سے باہر دنیا کی سب سے وسیع اور پیچیدہ نگرانی کے نظام” میں شمار ہوتا ہے۔

ایمنسٹی کے مطابق، پاکستانی انٹیلیجنس ادارے روزانہ کروڑوں شہریوں کی ٹیلی فون کالز، ٹیکسٹ پیغامات اور آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، اور یہ سب کچھ جدید چینی ساختہ فائر وال ٹیکنالوجی اور مغربی ڈیجیٹل نگرانی کے آلات کے امتزاج سے ممکن بنایا جا رہا ہے۔

‘قانونی نگرانی’ کے نام پر خفیہ جاسوسی

ایمنسٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں استعمال ہونے والا Lawful Intercept Management System (LIMS) ایسا نظام ہے جو خفیہ طور پر کم از کم چار ملین موبائل فون نمبرز کی نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے تحت متعلقہ شہریوں کی کالز سنی جاتی ہیں، پیغامات پڑھے جاتے ہیں، اور ریکارڈنگ کی جاتی ہے، بغیر اس بات کے کہ صارف کو اس کا علم ہو۔

ایمنسٹی کے مطابق یہ نظام پاکستان کے تمام بڑے موبائل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہے، جنہیں باقاعدہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے تمام صارفین کی ڈیجیٹل سرگرمیوں کو LIMS کے ساتھ مربوط کریں۔ اس عمل میں صارفین کی رضامندی شامل نہیں ہوتی، جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

WMS 2.0 فائر وال اور انٹرنیٹ سنسرشپ

اسی رپورٹ میں ایک اور اہم انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک جدید چینی ساختہ فائر وال سسٹم، جسے Web Management System 2.0 (WMS 2.0) کہا جاتا ہے، فعال ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے دو ملین تک انٹرنیٹ سیشنز کو بیک وقت مانیٹر یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔

یہ فائر وال سوشل میڈیا، ویڈیوز، بلاگز، اور سیاسی اظہار کے دیگر پلیٹ فارمز پر سنسرشپ نافذ کرتا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق، "WMS 2.0 اور LIMS ایک دوسرے کے ساتھ مربوط انداز میں کام کرتے ہیں اور مجموعی طور پر یہ نظام ایک ایسے ڈیجیٹل جال کی مانند ہے جو ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔”

آزادی اظہار اور میڈیا پر شدید اثرات

ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی سے محدود میڈیا اور سیاسی آزادی گزشتہ چند برسوں میں مزید محدود ہو چکی ہے، خاص طور پر 2022ء کے بعد سے جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے مابین تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔ اس کے بعد عمران خان کو گرفتار کیا گیا، اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:

"وسیع پیمانے پر کی جانے والی یہ نگرانی معاشرے میں خوف، خود سنسری (Self-Censorship) اور شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ شہری اپنے آن لائن اور آف لائن حقوق کے استعمال سے ہچکچانے لگتے ہیں، جو کہ جمہوری اقدار کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔”

معروف مقدمات: بشریٰ بی بی کا حوالہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں 2024ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر مقدمے کا بھی حوالہ دیا، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی نجی ٹیلی فون کالز، جو کہ خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھیں، بعد ازاں انٹرنیٹ پر لیک کر دی گئیں۔ یہ معاملہ پاکستان میں نگرانی کے نظام کے استعمال پر مزید سوالات اٹھاتا ہے۔

چھ لاکھ سے زائد ویب سائٹس بلاک، سوشل میڈیا تک محدود رسائی

ایمنسٹی کے مطابق، پاکستان میں اس وقت تقریباً 650,000 ویب لنکس بلاک ہیں، جن میں متعدد نیوز پورٹلز، سیاسی ویب سائٹس، مذہبی مباحث، اور انسانی حقوق سے متعلق مواد شامل ہے۔
اس کے علاوہ یوٹیوب، فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی مختلف اوقات میں محدود کی جاتی ہے، جسے سیاسی اور سماجی معاملات پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

عوامی ردعمل اور ماہرین کی رائے

ڈیجیٹل حقوق کے ایک ماہر اور سائبر لاء کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر بلال کے مطابق:

"یہ صورتحال نہ صرف پرائیویسی کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 (پرائیویسی کا حق) کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی آزادیوں کی حفاظت کرنی چاہیے، نہ کہ انہیں ایک نادیدہ نگرانی کے شکنجے میں جکڑنا۔”

پاکستانی حکومت کا مؤقف؟

رپورٹ میں پاکستانی حکومتی یا سکیورٹی اداروں کا کوئی براہ راست ردعمل شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم، ماضی میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (PTA) اور وزارت داخلہ اس قسم کی نگرانی کو قومی سلامتی کے تناظر میں "ضروری” قرار دیتے رہے ہیں، خاص طور پر دہشت گردی اور سائبر کرائمز کے خلاف کارروائی کے لیے۔

بین الاقوامی برادری کی تشویش

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں نگرانی کے اس بڑھتے ہوئے جال پر آواز بلند کرے اور حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ انسانی حقوق اور پرائیویسی کے بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کرے۔


نتیجہ: ڈیجیٹل آزادی بمقابلہ ریاستی کنٹرول

پاکستان میں ڈیجیٹل نگرانی کے اس وسیع نظام نے ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے جو صرف تکنیکی یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی نوعیت کی بھی ہے۔ آیا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں ہر شہری کو نگرانی کے دائرے میں لانا جائز ہے؟ یا کیا یہ آزادی اظہار، سیاسی عمل، اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک خطرناک راستہ ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو اب پاکستان کے ہر شہری، ہر صحافی، ہر کارکن، اور ہر پالیسی ساز کے سامنے ہیں — اور جن کا جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button